021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مہر شوہر کے ذمہ لازم ہونے کی صورت میں عورت کو زکوة دینے کا حکم
79626زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

ایک عورت کی ملکیت میں دو لاکھ روپے ہیں،جو مہر کی صورت میں شوہر کے ذمہ لازم ہے،اس کے علاوہ ملکیت میں اور کچھ نہیں،کیا ایسی عورت کو زکوة دے سکتے ہیں جبکہ وہ غریب ہو؟

تنقیح:مذکورہ مہر مؤجل ہے،جو شوہر ایک سال کے بعد ادا کرے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

      اگر کسی عورت کے پاس مہر مؤجل کی صورت میں اتنی رقم  موجود ہوجس کی مقدار چاندی کے نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو،لیکن اس کے علاوہ اموال زکوة میں سے کوئی اور مال،یا ضرورت اصلیہ سے زائد اتنا سامان نہ ہو جس کی مجموعی قیمت ساڑھ باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہو  تو شرعا یہ عورت فقیرہ شمار ہوگی اور اس کو زکوة دینا جائز ہے،لہذا مذکورہ عورت اگر سیدہ نہیں ہے تو اس کو زکوة دینا شرعا درست ہے۔

حوالہ جات
(رد المحتار:9/520،دار المعرفۃ)
" والمرأة موسرة بالمعجل لو الزوج مليا وبالمؤجل لا".
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي :ج: 5 ، ص :137)
"وفي فتح القدير: ولو دفع إلى فقيرة لها مهر دين على زوجها يبلغ نصابا،وهو موسر بحيث لو طلبت أعطاها لا يجوز، وإن كان بحيث لا يعطي لو طلبت جاز ا ه‍. وهو مقيد لعموم ما في الخانية: والمراد من المهر ما تعورف تعجيله؛  لأن ما  تعورف تأجيله فهو دين مؤجل لا يمنع أخذ الزكاة."

ابرار احمد صدیقی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

  ۲۸ /ذی الحجہ /١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ابراراحمد بن بہاراحمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے