021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
روپیہ کے عوض ڈالر مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرنا
80614خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

زید نے عمرو کو چھ مہینے کی میعاد پر ایک لاکھ ڈالر دیے، ڈالر کا آج کا ریٹ مثلا ڈیڑھ سو روپیہ ہے، لیکن یہ شخص  چھ ماہ کی میعاد کی وجہ سے پچاس روپے نفع پر دیتا ہے، یعنی فی ڈالر دو سو روپے  پاکستانی کے حساب سے  لیناطے کرتا ہے، لہذا عمرو چھ ماہ بعد اس کو فی ڈالر دو سو روپے کے حساب سے پاکستانی روپیہ دینے کا پابند ہوتا ہے، خواہ ڈالر کا ریٹ اس سے بڑھ جائے یا کم ہو جائے۔  سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ جائز ہے؟    نیز یہ بھی بتایے کہ آیا یہ معاملہ قرض کا ہے یا خریدوفروخت کا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں معاملہ کرتے وقت جب ڈالر کے بدلے پاکستانی روپیہ لینا طے کر لیا گیا تو یہ معاملہ قرض کی بجائے خریدوفروخت کا ہو گیا، کیونکہ قرض کا اصول یہ ہے کہ"الديون تقضى بأمثالها" یعنی قرض جس جنس میں وصول کیا گیا ہواسی جنس میں واپس لوٹایا جاتا ہے ۔ لہذا معاملہ کرتے و قت کرنسی کی جنس تبدیل کرنے کی وجہ سے اصولی اعتبار سے یہ معاملہ خریدوفروخت کا ہوا، البتہ کرنسی کی ادھار خریدوفروخت کے درست ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ کرنسی کو مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت پر فروخت نہ کیا جائے، کیونکہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت پر بیچنے کی صورت کو سود کے حیلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وہ اس طرح کہ اگر زید ڈالر دے کر اضافی ڈالر لینا طے کرتا تو یہ بلا شبہ سود ہوتا، اس سے بچنے کے لیے اس نے  فی ڈالر زیادہ قیمت لگا کر پاکستانی روپے لینا طے کر لیے،  اس لیے مذکورہ معاملہ میں مارکیٹ ریٹ سے زائد قیمت کی شرط لگانا ناجائز ہے اور عمرو پر معاملہ کے وقت ڈالر کے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ہی روپے دینا لازم ہے۔

حوالہ جات
سنن أبي داود (3/ 250) المكتبة العصرية، صيدا،  بيروت:
حدثنا موسى بن إسماعيل، ومحمد بن محبوب، المعنى واحد، قالا: حدثنا حماد، عن سماك بن حرب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر، قال: كنت أبيع الإبل بالبقيع فأبيع بالدنانير، وآخذ الدراهم وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير، آخذ هذه من هذه وأعطي هذه من هذه
فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو في بيت حفصة فقلت: يا رسول الله، رويدك أسألك إني أبيع الإبل بالبقيع فأبيع بالدنانير، وآخذ الدراهم وأبيع بالدراهم، وآخذ الدنانير آخذ هذه من هذه وأعطي هذه من هذه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا بأس أن تأخذها بسعر يومها ما لم تفترقا وبينكما شيء»
المفاتيح في شرح المصابيح (3/ 445) الحسين بن محمود بن الحسن الحَنفي المشهورُ بالمُظْهِري (المتوفى: 727 هـ)دار النوادر:
قوله: "لا بأسَ أن تأخذَها بسعر يومها"؛ يعني: يجب أخذُ الدراهم بدلاً عن الدنانير بقيمة الوقت، ولا يجوز الزيادةُ.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (175/1) مكتبة دارالعلوم كراتشي:  
وقد يقع إشكال على جواز النسيئة أنه لو أجيزت النسيئة في مبادلة عملات مختلفة، يمكن أن تصبح النسيئة حيلة لأكل الربا.......... وحل هذه الإشكال ماذكرنا من أن يشترط في جواز النسيئة  أن يكون بسعر المثل يوم العقد، فإن اشتراط ثمن المثل في عقود النسيئة يقطع الاحتيال على الربا.  واشتراط سعر المثل في المبادلات له نظائر كثيرة في الفقه، مثل أجرة كتابة الفتوى، أجازها الفقهاء بشرط أن لا يتجاوز فيه عن أجرة المثل، وذلك أن لا يتخذ ذلك حيلة لتقاضي الأجرة على الإفتاء نفسه.                                                                                                                            
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (178/1) مكتبة دارالعلوم كراتشي: 
ولکن جواز النسیئة فی تبادل العملات المختلفة یمکن ٲن یتخذ حیلة لٲکل الربا، فمثلا: إذا أراد المقرض أن يطالب بعشر ربيات على المائة المقرضة، فإنه يبيع مائة ربية نسيئة بمقدار من الدولارات التي تساوي مائة وعشر ربيات، وسداّ لهذا الباب فإنه ينبغي أن يقيّد جواز النسيئة في بيع العملات أن يقع ذلك على سعر السوق السائد عند العقد.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

22/ذوالحجہ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب