021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھ کر دمشق سے مدینہ آنا”
80620حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھ کر دمشق سے مدینہ کر آذان دینا کیا من گھڑت قصہ ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکورہ روایت کو نور الدين، علي بن محمد ابن عراق الكناني نے اپنی کتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة (118/2) میں ذکر کیا ہے، روایت کے الفاظ یہ ہیں:

"[أثر] أبي الدرداء: لما دخل عمر بن الخطاب الشام سأله بلال أن يقر بالشام، ففعل ذلك، فنزل داريا، ثم إن بلالا رأى في منامه النبي وهو يقول له: «ما هذه الجفوة يا بلال، أما آن لك أن ‌تزورني ‌يا ‌بلال» فانتبه حزينا وجلا خائفا، فركب راحلته وقصد المدينة، فأتى قبر النبي، فجعل يبكي عنده، ويمرغ وجهه عليه، وأقبل الحسن والحسين، فجعل يضمهما ويقبلهما، فقالا: يا بلال، نشتهي نسمع أذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله في المسجد، ففعل فعلا سطح المسجد، فوقف موقفه الذي كان يقف فيه، فلما أن قال: الله أكبر، الله أكبر، ارتجت المدينة، فلما أن قال: أشهد أن لا إله إلا الله، زاد تعاجيجها، فلما أن قال: أشهد أن محمدا رسول الله، خرج العواتق من خدورهن، فقالوا: أبعث رسول الله؟ فما رؤي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله من ذلك اليوم.

ترجمہ: حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام پہنچے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ان سے خود کو شام میں ٹھہرنے کی اجازت مانگی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دے دی، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ایک گھر میں قیام کیا، جہاں ان کو خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ کیا اب وہ لمحہ نہیں آ پہنچا کہ تم میری زیارت کے لیے (مدینہ) آوٴ؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ گھبراہٹ کے عالم میں نیند سے بیدار ہوئے، سواری پر سوار ہوئے اور مدینہ منورہ پہنچ کر قبرِ مبارک پر حاضری دی، وہاں روتے رہے، اور اپنے چہرے کو قبر مبارک پر ملتے رہے۔ اتنے میں حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما تشریف لے آئے، تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے دونوں کو گلے لگایا، پیار کیا۔ ان دونوں نے فرمائش کی کہ اے بلال! ہم وہ اذان سننا چاہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ دیا کرتے تھے، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ مسجد کی چھت میں چڑھ کر اس جگہ کھڑے ہوگئے جہاں نبی کریم ﷺ کے زمانے میں کھڑے ہوا کرتے تھے، پھر جب انہوں نے (اذان شروع کرتے ہوئے) الله أكبر، الله أكبر کہا تو سارا مدینہ حرکت میں آگیا، اور جب أشهد أن لا إله إلا الله کہا تو یہ حرکت شدید ہوگئی، لیکن جب أشهد أن محمدا رسول الله کہا تو عورتیں بھی باہر نکل آئیں اور لوگ سوالیہ انداز میں کہنے لگے کہ کیا رسول اللہ ﷺ (دوبارہ) بھیجے گئے ہیں؟ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔

لیکن محدثینؒ نے اس قصے کو درجِ ذیل وجوہات کی وجہ سے موضوع قرار دیا ہے:

1. اس واقعے کو جس سند سے نقل کیا گیا ہے، اُس میں ایک راوی سلیمان بن بلال پر محققینِ حدیث رحمۃ اللہ علیہم نے مجہول ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔

2. اسی طرح ہشام بن ابراہیم دمشقی راوی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس پر جھوٹ بولنے کی تہمت لگی ہوئی تھی، اور احادیث کے بارے میں ان کا علم بھی ناکافی تھا۔

3. نیز محمد بن سلیمان راوی اس پائے کہ مشہور نہیں ہیں کہ ان کی مرویات پر اعتماد کیا جا سکے۔

حوالہ جات
تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لنور الدين، علي بن محمد ابن عراق الكناني (ت:٩٦٣هـ) (118/2):
"قال الذهبي في الميزان: فيه جهالة. وقال ابن حجر في اللسان: هذه قصية بينة الوضع."
الزيادات على الموضوعات لجلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي (ت:٩١١ هـ) (407/1):
"قال في (الميزان): إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء فيه جهالة. قال في (اللسان): ترجم له ابن عساكر ثم ساق مِن روايته عن أبيه عن جده عن أمِّ الدرداء عن أبي الدرداء في قصة رحيل بلال إلى الشام وفي قصة مجيئه إلى المدينة وأذانه بها وارتجاج المدينة بالبكاء لأجل ذلك، وهي قصة بيِنة الوضع."
الصارم المنكي في الرد على السبكي لشمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (ت:٧٤٤هـ) (ص:237):
"هذا الأثر المذكور عن بلال ليس بصحيح عنه ...
وقد ذكر هذا الأثر الحاكم أبو أحمد محمد بن أحمد بن إسحاق النيسابوري الحافظ في الجزء الخامس من فوائده، ومن طريقة ذكره ابن عساكر في ترجمة بلال، وهو أثر غريب منكر، وإسناده مجهول، وفيه انقطاع، وقد انفرد به محمد بن الفيض الغساني، عن إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال، عن أبيه، عن جده، وإبراهيم بن محمد هذا شيخ لم يعرف بثقة وأمانة ولا ضبط وعدالة، بل هو مجهول غير معروف بالنقل ولا مشهور بالرواية، ولم يرو عنه غير محمد بن الفيض روى عنه هذا الأثر المنكر...
وقد كتب بعضهم عن إبراهيم بن هشام بن يحيى (بن يحيى) الغساني الدمشقي ... وقد علم أن إبراهيم بن هشام شيخ متهم بالكذب لا يعرف الحديث ولا يدريه ولا يحتج بروايته ...
وأما محمد بن سليمان بن بلال والد إبراهيم، فإنه شيخ قليل الحديث لم يشتهر من حاله ما يوجب قبول أخباره... والحاصل أن مثل هذا الإسناد لا يصلح الاعتماد عليه."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

24/ذوالحجۃ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب