021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمیشن ایجنٹ کا فریقین سےاجرت لینے کا حکم
80293اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کہ  بارے میں ہمارے ضلع اوکاڑہ کی سبز ی منڈیوں و غلہ منڈیوں میں ڈبل کمیشن کی ترتیب ہے جسکی تفصیل یہ ہے :

 کسان اپنا مال لے کر کمیشن ایجنٹ کے پاس آتا ہےتو اس کے پاس بکنے کے لیے رکھوادیتا ہے،اس کو کہتا ہے کہ اس کو بیچ دو، تو کمیشن ایجنٹ اس کو کچھ پیسے دیتے ہیں تاکہ وہ گھر کی ضروریات کو پورا کرسکیں،پھر ایجنٹ  اس کا  مال  آگے بیچ  دیتا ہے،بدلہ میں .50 3 روپے کمیشن کاٹتا ہے ، بعض اوقات پہلے سے  کسان نے کمیشن ایجنٹ سے ادھار لیا ہوتا ہے،پھر اسی ادھار ہی میں سے کٹوتی کی جاتی ہے۔پھرجب ایجنٹ اسی مال کو خریدار کے ہاتھوں بیچتا ہے تو  اس سے بھی .50 3روپے کمیشن کاٹتا ہے اور پیسے اس سے پندرہ دن کے وعدے پر لیتا ہے ، کیا دونوں طرف سے کمیشن لینا جائز ہے ؟جبکہ اکثر منڈیوں میں یک طرفہ کمیشن لیا جاتا ہے اور یہاں زمیندار 7 روپے کمیشن کٹوانے پر رضامند نہیں ہوتا ، تو کیا اس صورتحال میں ڈبل کمیشن لینا جائز ہے ؟

نوٹ : کفایت المفتی میں ایک جگہ ڈبل کمیشن کے جواز کا فتوی مذکور ہے ، اسکی بھی وضاحت فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ عام طور پرکمیشن ایجنٹ کے کام کی دوصورتیں ہیں:

 1- پہلی صورت یہ ہے کہ کمیشن ایجنٹ صرف  خریدنے والے یا بیچنے والےکا وکیل بن کر  اس کی طرف سے عقد کرتا ہے،یعنی یا تو خریدار کے لیے سامان خریدتا ہے یا فروخت کنندہ کی طرف سے اس کا سامان بیچتا ہے،اس صورت میں کمیشن ایجنٹ صرف اس شخص سے متعین کمیشن لے سکتا ہے جس کا وہ وکیل ہوتا ہے،دوسرے فریق سے کمیشن وصول کرنا اس کے لیے شرعا جائز نہیں۔

2-  دوسری صورت یہ ہےکہ وہ کسی کا وکیل بن کر عقد نہیں کرتا، بلکہ دونوں جانب یعنی  فروخت کنندہ اور خریدار کے درمیان رابطہ کرواتا ہے،پھر وہ دونوں آپس میں عقد کرلیتے ہیں،چونکہ اس صورت میں کمیشن ایجنٹ نے دونوں کو آپس میں ملا کر دونوں کے لیے خدمات مہیا کی ہیں لہذا اگر مارکیٹ میں فریقین سے کمیشن وصول کرنے کا رواج ہو تو دونوں طرف سے کمیشن وصول کرسکتا ہے اور اگر کسی ایک فریق (خواہ خریدار ہو یا فروخت کنندہ) سے وصول کرنے کا رواج ہو تو پھر اسی سے کمیشن وصول کرنا جائز ہوگا،دوسرے فریق سے لینا جائز نہ ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں چونکہ ایجنٹ کسان (فروخت کنندہ) سے مال لے کر خود اس کے لیے فروخت کرتا ہے لہذا وہ صرف کسان سے ہی کمیشن لے سکتا ہے، خریدنے والوں سے کمیشن لینا جائز نہیں ہے۔

وضاحت:

1-اگر کمیشن ایجنٹ نے کسانوں  کو قرض دیا ہو تو اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ان سے مارکیٹ ویلیو کے مطابق ہی کمیشن کا معاملہ کریں، قرض کی وجہ سے اس سے زیادہ نفع (کمیشن) لیں گے تو یہ بھی جائز نہیں ہوگا۔

2-فریقین سے کمیشن وصول کرنے کے بارے میں بعض فتاوی (فتاوی حقانیہ،فتاوی دار العلوم دیوبند)میں جواز کا ذکر ہے،تو اس سے مراد وہی دوسری صورت ہے کہ جس میں ایجنٹ کسی کا وکیل نہیں بنتا بلکہ وہ فریقین کو آپس میں ملواتا ہے۔                   واللہ سبحانہ و تعالی اعلم

حوالہ جات
(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:ج: 2 / ص: 57)
"مصارف الدلالة : إذا باع الدلال مالا بإذن صاحبه تؤخذ أجرة الدلالة من البائع ،ولا يعود البائع بشيء من ذلك على المشتري ؛ لأنه العاقد حقيقة ،وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا ؛ لأنه لا وجه له.أما إذا كان الدلال مشى بين البائع والمشتري ،ووفق بينهما، ثم باع صاحب المال ماله ينظر ،فإن كان مجرى العرف والعادة أن تؤخذ أجرة الدلال جميعها من البائع أخذت منه ،أومن المشتري أخذت منه، أو من الاثنين أخذت منهما ."
(الدر المختار  مع رد المحتار:4 / 560)
"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع. وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف ،وتمامه في شرح الوهبانية.
(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة.شرح الوهبانية. وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع ،أو المشتري ،أو عليهما بحسب العرف .جامع الفصولين."
(مجمع الضمانات :1 / 54)
"الدلال لو باع العين بنفسه بإذن مالكه ليس له أخذ الدلالة من المشتري ،إذ هو العاقد حقيقة، وتجب الدلالة على البائع إذا قبل بأمر البائع. ولو سعى الدلال بينهما، وباع المالك بنفسه يعتبر العرف، فتجب الدلالة على البائع،أو على المشتري ،أو عليهما بحسب العرف."
 (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية :1 / 247)
سئل في دلال سعى بين البائع والمشتري ،وباع المالك المبيع بنفسه والعرف أن الدلالة على البائع فهل تكون على البائع؟
(الجواب) : نعم.وفي فوائد صاحب المحيط:الدلال إذا باع العين بنفسه، ثم أراد أن يأخذ من المشتري الدلالة ليس له ذلك؛ لأنه هو العاقد حقيقة، وتجب على البائع الدلالة؛ لأنه فعل بأمر البائع هكذا أجاب. ثم قال: ولو سعى الدلال بينهما،وباع المالك بنفسه يضاف إلى العرف .إن كانت الدلالة على البائع فعليه، وإن كانت على المشتري فعليه، وإن كانت عليهما فعليهما. عمادية من أحكام الدلال وما يتعلق به ،ومثله في الفصولين ،وشرح التنوير للعلائي من البيع." 

 ابرار احمد صدیقی

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

  ١۳/ ذو القعدة/ ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ابراراحمد بن بہاراحمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے