021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مارپیٹ کی بنیاد پر عدالتی خلع کا حکم
80760طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

اپنے شوہر کے ظلم وتشدد اور مارپیٹ کی وجہ سے عرصہ دس سال سے اپنے والدین کے گھر میں مقیم ہوں اور تقریباً چھ سال سے میرا شوہر پاکستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں چلا گیا ہے اور اس کا کچھ علم نہیں ہے کہ کس ملک میں ہے؟ اس دس سال کے دورانیے میں اس نے نان ونفقہ وغیرہ بھی نہیں دیا، چنانچہ میں نے عدمِ موافقت کی وجہ سے عدالت سے رجوع کیا تو انہوں نے فسخِ نکاح کی ڈگری جاری کر دی، پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ خلع درست ہوا ہے؟ اگر درست نہیں ہوا تو بتایے کہ میں کس طرح  فسخِ نکاح یا خلع لے سکتی ہوں؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ شوہر سے تنگ آکر لڑکی خود اپنے والدین کے گھر آئی تھی، نیز عدالت میں مارپیٹ پر گواہ کے طور پر صرف والد پیش ہوئے تھے، اس کے علاوہ کوئی شخص گواہ نہیں تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے عدالتی فیصلہ پر دستخط نہیں کیے تھے اور نہ ہی اس فیصلے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا، بلکہ عدالت نے شوہر کی رضامندی کے بغیر ہی یک طرفہ طور پر تنسیخِ نکاح کی ڈگری جاری کر دی تھی تو اس صورت میں فسخِ نکاح کا مذکورہ عدالتی فیصلہ شرعاً معتبر نہیں، کیونکہ خلع کے شرعاً معتبر ہونے کے لیے خاوند کی رضامندی ضروری ہے، نیز اس فیصلے کو تنسیخِ نکاح پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ تنسیخِ نکاح کے لیے عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے دعوی کو عدالت میں گواہوں کے ذریعہ ثابت کرے، جبکہ مذکورہ صورت میں عورت نے شرعا معتبر گواہوں کے ذریعہ اپنے دعوی کو ثابت نہیں کیا،  لہذا اس فیصلے کی وجہ سے فریقین کے درمیان نکاح ختم نہیں ہوا، بلکہ فریقین کے درمیان نکاح بدستور قائم ہے اور آپ کا اپنے شوہر سے طلاق یا اس کی رضامندی سے خلع لیے بغیر آگے نکاح کرنا جائز نہیں۔

البتہ اگر واقعتاً سوال میں ذکر کی گئی صورتِ درست ہے تو اولاً  لڑکے کا پتہ معلوم کرکے اس سے  طلاق یا کچھ مال دے کرخلع دینے پر رضامند کیا جائے اور اگر بالفرض وہ اس پر تیار نہ ہویا اس سے رابطہ نہ ہو تو جماعت المسلین کے ذریعہ فیصلہ کروا لیا جائے، جس کی صورت یہ ہے کہ آپ  اپنےعلاقے کے چار پانچ  نیک اور صالح آدمیوں (یہ مسئلہ چونکہ مالکی مسلک سے لیا گیا ہے،لہذا مالکی مسلک پر عمل کرتے ہوئے اس جماعت کے تمام اراکین کا صالح ہونا ضروری ہے، کیونکہ مالکیہ کے نزدیک  شرعی فیصلہ کے لیے قاضی کا صالح ہونا شرط ہے، لہذا فاسق جیسے ڈاڑھی منڈوانے والا اور دیگر کبائر کا مرتکب شخص اس جماعت کا رکن نہیں بن سکتا  کذا فی الحیلة الناجزة:صفحہ:39) کو فیصلہ کے لیے نامزد کرلیا جائے، جن میں کم از کم ایک یا دو آدمی عالم ہوں، جو نکاح و طلاق وغیرہ کے مسائل سے واقف ہوں، خاتون ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کرے اور فیصلے کی مجلس میں گواہوں کے ذریعہ ثابت کردے کہ یہ  شوہر مارتا پیٹتا ہے اور عرصہ دس سال سے نان و نفقہ بھی نہیں دیا، یہ حضرات دعوی سننے کے بعد شوہر کو مجلسِ قضاء میں حاضر ہونے کا نوٹس بھیجیں، اگر شوہر آنے سے انکار کرے یا اس تک نوٹس نہ پہنچایا جا سکتا ہوتو اس کی بھی گنجائش ہے کہ یہ جماعت واقعہ کی دیانتاً اچھی طرح تحقیق کر کے اتفاقِ رائے سے فریقین کے درمیان تفریق کر دیں، (الحیلة الناجزة:صفحہ:135) اس تفریق کے بعد عورت کی عدت شروع ہو جائے گی، عدت پوری کرکے عورت دوسر ی جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ یہ تفریق طلاقِ رجعی شمار ہو گی، لہذا اگر شوہر عدت کے دوران آگیا اور وہ نان ونفقہ دینے اور مارپیٹ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائے تو اس کو رجوع کا حق ہو گا۔

حوالہ جات
الحيلة  الناجزة للحليلة العاجزة:(ص:181):
طريق تطليق زوجة المفقود أو الغائب الذي تعذر الإرسال أو أرسل إليه، فتعاند، إن كان لعدم النفقة فإن الزوجة تثبت لشاهدين أن فلانا زوجها وغائب عنها، ولم يترك لها نفقة، ولا وكيلا بها، ولا أسقطتهاعنه، وتحلف على ذلك، فيقول الحاكم فسخت نكاحه أو طلقت منه۔
"شرح مختصر خليل للخرشي" (4/ 198) دار الفكر للطباعة ، بيروت:
"وجماعة المسلمين العدول يقومون مقام الحاكم في ذلك وفي كل أمر يتعذر الوصول إلى الحاكم أو لكونه غير عدل".
حاشية العدوي على كفاية الطالب الرباني (2/ 133) دار الفكر – بيروت:
وجماعة المسلمين العدول يقومون مقام الحاكم في ذلك، وفي كل أمر يتعذر الوصول إلى الحاكم أو لكونه غير عدل وأما من لم يثبت عسره وهو مقر بالملاء وامتنع من الإنفاق، والطلاق، فإنه يعجل عليه الطلاق على قول ويسجن حتى ينفق عليها على آخر فإن سجن ولم يفعل فإنه يعجل عليه الطلاق.
الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقي (3/ 71) دار الفكر، بيروت:
والعدول يقومون مقام الحاكم عند تعذره إما لعدم أمانته أو لعدم اعتنائه بالأمور، فإن غاب أحد المتبايعين رفع الآخر الأمر للحاكم أو للعدول وفسخه.
الموسوعة الفقهية الكويتية (5/ 254) :      
وإذا عجز الزوج عما وجب عليه من النفقة على التفصيل السابق ، وطلبت الزوجة التفريق بينها وبين زوجها بسبب ذلك ، فعند المالكية والشافعية والحنابلة يفرق بينهما. وذهب الحنفية إلى أنه لا يفرق بينهما بذلك ، بل تستدين عليه ، ويؤمر بالأداء من تجب عليه نفقتها لولا الزوج .

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

3/محرم الحرام 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب