021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قربانی کا گوشت بلا اجازت استعمال کرنا
80736غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

میری والدہ نے قربانی کے بکرے کے لئے والد کو پیسے دئے ،انھوں نے دوسرے دن ذبح کر کے بکرا لٹکا دیا۔ ساتھ ایک دوسرا ذبح شدہ بکرا لٹک رہا تھا جو خاندان کی دعوت کے لئے تھا ۔میرے چچا نے دعوت کرنی تھی وہ دونوں بکرے کٹوا کر لے گئے اور ان کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ والدہ کا بکرا ہے ۔ اس صورت میں کیا والدہ مطالبہ کر سکتی ہیں ؟ میں نے میسیج میں حدیث بھیجی جس میں بغیر اجازت کسی کی چیز استعمال کرنے کی ممانعت تھی تو سب نے ملامت کی اور کہا کہ یہ خاندان کو توڑنے والی بات ہے ۔کیا مجھے میسج بھیجنا چاہئے تھا یا نہیں؟ اور اس بکرے سے جو دعوت کی گئ جس میں میں شریک تھی اس کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ ہمارے خاندان میں مشترکہ کھاتہ ہے ہمارے دادا خرچہ کرتے ہیں لیکن قربانی والدہ نے اپنے بھائی سے قرض لے کر کی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ قربانی کا جانور ذبح سے پہلے  بھی  اور ذبح کے بعد بھی قربانی کرنے والے کی ملکیت میں ہوتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ مالک کی اجازت کے بغیر اس کی چیز کو استعمال کرے ، لہذا سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق  آپ کے چچا کا بغیر اجازت بکرے کو لے جانا شرعا جائز نہیں  اور آپ کی والدہ  کو ذبح شدہ بکرے کی قیمت کے بقدر ضمان کا  حق حاصل ہے۔

آپ کے چچا کی دعوت میں چونکہ ان کا اپنا مال بھی شامل تھا تو یہ مال مخلوط ہوگیا اور مال مخلوط کا حکم یہ ہے کہ  مالک کی رضا اور ضمان کی ادائیگی سے پہلے اس کو استعمال کرنا جائز نہیں  ۔ اگر استعمال کرلیا تو گناہ گار ہوگا ، لہذا اگر آپ کی والدہ نے اس گوشت کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی آپ کے چچا نے  بطور ضمان قیمت ادا کی تھی تو وہ گناہ گار ہوں گے۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 170)
(المادة 881) الغصب هو أخذ مال أحد وضبطه بدون إذنه ويقال للآخذ غاصب وللمال المضبوط مغصوب ولصاحبه مغصوب منه.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 172)
(المادة 891) كما أنه يلزم أن يكون الغاصب ضامنا إذا استهلك المال المغصوب كذلك إذا تلف أو ضاع بتعديه أو بدون تعديه يكون ضامنا أيضا فإن كان من القيميات يلزم الغاصب قيمته في زمان الغصب ومكانه وإن كان من المثليات يلزمه إعطاء مثله.
الدر المختار (6/ 191)
(أو اختلط) المغصوب (بملك الغاصب بحيث يمتنع امتيازه) كاختلاط بره ببره. (أو يمكن بحرج) كبره بشعيره (ضمنه وملكه بلا حل انتفاع قبل أداء ضمانه) أي رضا مالكه بأداء أو إبراء أو تضمين قاض والقياس حله وهو رواية، فلو غصب طعاما فمضغه حتى صار مستهلكا يبتلعه حلالا في رواية
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 191)
(قوله بلا حل انتفاع إلخ) وفي المنتقى كل ما غاب صاحبه، ويخاف عليه الفساد فلا بأس بأن ينتفع به بعد ما يشهد على نفسه بضمانه، ولا يخرجه ذلك من إثم الغصب. وفي جامع الجوامع: اشترى الزوج طعاما أو كسوة من مال خبيث جاز للمرأة أكله ولبسها والإثم على الزوج تتارخانية

عبدالقیوم   

دارالافتاء جامعۃ الرشید

01/محرم الحرام/1445

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے