021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جان سے مار ڈالنے کی دھمکی پرطلاق نامہ پر دستخط کا حکم
80803طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

میری بہن کے شوہر سے اسکے گھر والوں نے جبراً ،جان سےماردینےنے کی دھمکی دیکر ،زبردستی طلاق ثلاثہ  کےاسٹامپ پیپرپر سائن کروا یا، لیکن وہ دینا نہیں چاہتا تھا جب کہ اس نے زبانی کُچھ نہیں کہا۔ میری بہن کے شوہر نے اپنی پہلی بیوی کو بتائے بغیر میری بہن سے دوسرا نکاح کیا۔ اسکی بیماری ڈپریشن، آٹو امیون گیٹرائٹس وغیرہ کی وجہ سے۔ ان بیماریوں کی وجہ سے اسکی پہلی بیوی بچوں کی بھی دیکھ بھال نہیں کر سکتی تھی، اس کی پہلی بیوی ان بیماریوں کی وجہ سے خود کشی کی کوشش بھی کر چکی ہے۔ جب میری بہن کے شوہر نے  پہلی بیوی کو دوسرے نکاح کا بتایا تو اس نے کہرام مچا دیا اور سارے گھر والوں کو اکھٹا کردیا ،میری بہن کے شوہر کی پہلی بیوی کے والد آرمی میں کرنل ہے، اُنہوں نے میری بہن کے شوہر کو جان کی ،سرکاری نوکری سے نکلوانے کی،خاندان والوں سے قطع تعلق ہر طرح کی دھمکی دی۔یہ سارے میسجز اسکے شوہر نے میری بہن کو واٹس ایپ بھی کیے کہ اسے اتنا مجبور کیا جا رہا ہے کہ اسکے شوہر کو خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ۔ میری بہن کے شوہر کو اس کے سسر نے میری بہن کو بھی مارنے کی دھمکی دی کہ اسے کہاں غائب کر کے مار دینگے، کُچھ پتہ نہیں چلے گا اور ان کی باتوں سے یقین ہو گیا تھا کہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے شوہر نے یہ میسیج بھی کیا :میں تمھارے بھائی ، والد ، والدہ اور بہن کو کچھ ہونے نہیں دونگا ۔ میری بہن کے شوہر کو میرے بھائی کی سرکاری نوکری سے نکلوانے کی دھمکیاں دی گئیں۔کیا واقعی قرآن اور حدیث کی نظر میں جبر ، ظلم کے زور پر تحریری طلاق واقع ہوجاتی ہے، جب کہ اس کے شوہر نے زبانی کچھ نہیں کہا ؟آپ سے گزارش ہے کہ اِس پر روشنی ڈالئے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر شوہر کو یقین یا کم از کم ظن غالب  ہو کہ اگر وہ طلاق نامہ پر دستخط نہیں کرے گا تو اس کا سسر اس  دھمکی  پر عمل کرنے پرقدرت رکھتا  ہے اور وہ اس کو نافذ بھی کردے گا تو ایسی صورت میں ذہنی دباؤ میں تحریری دستخط شرعا معتبر نہیں اور طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 129):
(و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال۔۔۔(فلو أكره بقتل أو ضرب شديد) متلف لا بسوط أو سوطين إلا على المذاكير والعين بزازية (أو حبس) أو قيد مديدين بخلاف حبس يوم أو قيده أو ضرب غير شديد إلا لذي جاه درر
 (قوله: أو حبس) أي حبس نفسه قال الزيلعي: والإكراه بحبس الوالدين أو الأولاد لا يعد إكراها لأنه ليس بملجئ ولا يعدم الرضا بخلاف حبس نفسه اهـ لكن في الشرنبلالية عن المبسوط: أنه قياس وفي الاستحسان حبس الأب إكراه وذكر الطوري أن المعتمد أنه لا فرق بين حبس الوالدين والولد في وجه الاستحسان زاد القهستاني: أو غيرهم: من ذوي رحم محرم وعزاه للمبسوط.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۸محرم۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے