021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کی تعمیرِ نو کے وقت مسجد کی جگہ میں وضو خانہ اور دکانیں تعمیر کرنے کا حکم
80747جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میرا سوال ہے کہ ایک جگہ مسجد کیلئے متعین ہوئی اور کچھ عرصہ اس جگہ پر نماز ادا ہوتی رہی مگر کچھ عرصہ بعد اس مسجد کو شہید کیا گیا تاکہ دوبارہ اسکی تعمیر کی جائے لیکن دوبارہ تعمیر کے وقت مسجد کا نقشہ بدل دیا گیا اور مسجد کی جگہ پر نیچے دکانیں اور وضو خانہ اور انکے چھت پر مسجد بنائی گئی لیکن جس نے جگہ وقف کی تھی اب وہ حیات نہیں کے اس سے اجازت لی جائے سوال یہ ہے کے کیا ایسا کرنا جائز ہے کے نہیں جبکہ دوکانوں کا کرایہ مسجد کے فنڈ میں جاتا ہے اور کیا اگر ناجائز ہے تو دکان والے پر کیا حکم عائد ہوگا کیا اسکی روزی حرام ہوگی؟ اور کمیٹی والوں اور ایسا کرنے والوں کیلئے کیا حکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجد میں جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص کی جائے وہ ہمیشہ کے لیے "تحت الثریٰ"  (زمین کی تہہ) سے اوپر آسمان تک سب مسجد کے حکم میں ہو تی ہے، اس میں کوئی اور چیز تعمیر نہیں کی جاسکتی۔ البتہ اگر مسجد کی تعمیر سے پہلے نیچےوالے حصے میں دکانیں بنائی جائیں اور یہ دکانیں مسجد کے مصالح اور آمدنی کے لیے ہوں تو اس کی گنجائش ہے، لیکن جب مسجد کی تعمیر مکمل ہوجائے  تو  پھر نیچے دکانیں بنانا درست نہیں ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں جب واقف (مسجد کے لیے زمین وقف کرنے والے) نے مطلق مسجد اور اس کی ضروریات کے لیے زمین وقف کی تو اس میں جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے متعین ہوگئی تھی وہ ہمیشہ کے لیے "تحت الثری" سے اوپر آسمان تک ہمیشہ کے لیے مسجد بن گئی تھی، اس میں کسی قسم کی اور چیز بنانا جائز نہیں ہے، لہذ ا اگر مسجد کی نئی تعمیر میں مذکورہ دکانیں اور وضو خانہ پرانی مسجد کی نماز کے لیے مخصوص کی گئی جگہ کی حدود میں یا اس کے نیچے بنائی گئی ہے تو شرعاً ایسا کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ اسے مسجد میں شامل کرنا ضروری ہے ، اور اگر مذکورہ دکان نماز کے لیے مختص کی گئی جگہ کے اردگرد  کی مسجد کی موقوفہ زمین میں بنائی گئی ہے تو یہ دکان مسجد کی ملکیت ہے، اس سے جو آمدنی ہوگی وہ مسجد کی ضروریات اور مصالح میں صرف کرنا ضروری ہوگا۔ بہر دو صورت دکانداروں کی آمدنی فی نفسہ حلال ہوگی البتہ پہلی صورت میں دکانداروں کو بھی ایسی دکانوں سے احتراز لازم ہے۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي (12/ 190):
"وحاصله إن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى * (وأن المساجد لله) * (الجن: 18) بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لاحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت
المقدس. هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية. وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكني الامام فإنه لا يضر في كونه مسجدا لانه من المصالح. فإن قلت: لو جعل مسجدا ثم أراد أن يبني فوقه بيتا للامام أو غيره هل له ذلك؟ قلت قال في التتارخانية: إذا بنى مسجدا وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه. وفي جامع الفتاوى: إذا قال عنيت ذلك فإنه لا يصدق"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 357):
"(وإذا جعل تحته سردابا لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها أو) جعل (فوقه بيتا وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجدا.
(قوله: وإذا جعل تحته سردابا) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره كذا في الفتح وشرط في المصباح أن يكون ضيقا نهر (قوله أو جعل فوقه بيتا إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجدا فيما إذا لم يكن وقفا على مصالح المسجد وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجدا. اهـ. شرنبلالية"

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

04/محرم الحرام/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے