021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رقم دے کر نوکری حاصل کرنے اور اس کی کمائی کا حکم
80802جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

اگر کوئی نوکری پیسوں پر حاصل کرلےیعنی میں کسی کو پیسے دے کر نوکری حاصل کروں کیا اس میں گناہ ہے؟حالا نکہ ٹیسٹ دے دیتا ہوں نوکری کے لئے جو تحریری ٹیسٹ ہوتا ہےاور اس کے تنحواہ کا کیا حکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نوکری حاصل کرنے کے لیے رقم دینے میں درج ذیل تفصیل ہے:

(۱)اہلیت اور قابلیت نہ ہونے کےباوجودرقم دے کرنوکری حاصل کرناناجائز اوررشوت  ہے، باقی صرف تحریری ٹیسٹ یاانٹرو ویو دینا کافی نہیں، بلکہ ضابطہ کے مطابق اس میں کامیابی بھی شرط ہے۔

(۲)اگرقابلیت ہو،لیکن ناجائز اور امتیازی سلوک سے بچنے کے لیےیاکم ازکم مساویانہ اور منصفانہ سلوک کی تحصیل کےلیےرقم دی جائے تو دینےکی گنجائش ہے،البتہ رشوت  لینا پہلی اوردوسری دونوں صورتوں میں ناجائز ہے، جس کے جواز کی کوئی صورت ممکن نہیں۔

(۳)نوکری حاصل کرنےمیں صرف ترجیح حاصل کرنے کے لیے  رقم دینا بھی رشوت کے زمرے میں داخل اور ناجائزہے۔فھذا داخل فی قاعدۃ ان الضرر الخاص یتحمل لدفع الضرر العام کما فی احسن الفتاوی: ج۸،ص۹۸)

اگر ناجائز طریقہ سے رشوت دے کر ملازمت حاصل کی جائے تو ایسی صورت میں اگر متعلقہ کام بخوبی سرانجام دینےکی صلاحیت موجودہوتو تنخواہ لیناجائزہے،(لیکن کراہت سےبہرحال خالی نہیں۔)

(احسن الفتاوی :ج۸ ص۱۹۸)

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 362)
وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة.
الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.
الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط وحيلة حلها أن يستأجره يوما إلى الليل أو يومين فتصير منافعه مملوكة ثم يستعمله في الذهاب إلى السلطان للأمر الفلاني، وفي الأقضية قسم الهدية وجعل هذا من أقسامها فقال: حلال من الجانبين كالإهداء للتودد وحرام منهما كالإهداء ليعينه على الظلم وحرام على الآخذ فقط، وهو أن يهدى ليكف عنه الظلم والحيلة أن يستأجره إلخ قال: أي في الأقضية هذا إذا كان فيه شرط أما إذا كان بلا شرط لكن يعلم يقينا أنه إنما يهدي ليعينه عند السلطان فمشايخنا على أنه لا بأس به، ولو قضى حاجته بلا شرط ولا طمع فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال لا بأس به وما نقل عن ابن مسعود من كراهته فورع
الرابع: مايدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب، اهـ ما في الفتح ملخصا. وفي القنية الرشوة يجب ردها ولا تملك وفيها دفع للقاضي أو لغيره سحتا لإصلاح المهم فأصلح ثم ندم يرد ما دفع إليه اهـ، وتمام الكلام عليها في البحر ويأتي الكلام على الهدية للقاضي والمفتي والعمال.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۸محرم ۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے