021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نماز عید کی پہلی رکعت میں تین زائد تکبیرات چھوٹ جانے کی وجہ سے اعادہ نماز کا حکم(صلوۃ معادہ )نماز میں وقوع نقص کی وجہ سے دوبارہ جماعت کرائی گئی تو اس میں نئے مقتدیوں کی شرکت کاحکم
80973نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں حضراتِ علمائے کرام و مفتیانِ شرعِ متین دریں مسئلہ کہ:

بندہ مفتی محمد عثمان، نواب شاہی (امام و خطیب: جامع مسجد کو ثر، نواب شاہ) عرصہ تین سال سے نواب شاہ شہر کی مرکزی عیدگاہ: میونسپل گراؤنڈ میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ اس بار عید الفطر کے موقع پر پہلی رکعت میں تین زائد تکبیرات چھوٹ گئیں، بقیہ نماز معمول کے مطابق مکمل کی، بعدِ نماز مسئلہ سے بھی آگاہ کر دیا کہ نماز ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں۔

اس موقع پر عیدگاہ میں لگ بھگ پانچ سے چھ ہزار کا مجمع تھا۔ تکبیرات رہ جانے کی وجہ سے عوام الناس میں عجیب بے چینی اور اضطرابی کیفیت محسوس ہو رہی تھی۔ اکثر لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے امام کے ساتھ رکوع ہی نہیں کیا، بعض نے نماز ہی توڑ ڈالی، جبکہ بعض لوگ دورانِ نماز ہی زور زور سے کہتے رہے کہ مولوی صاحب! تکبیرات رہ گئیں۔ سوائے چند علماء اور ابتدائی صفوں میں موجود نمازیوں کے تقریباً ایک بڑا مجمع اپنی نماز خراب کر بیٹھا تھا۔ لوگوں کا اصرار تھا کہ دوبارہ نماز پڑھائی جائے۔

چنانچہ معروضی حالات کے پیشِ نظر فتنہ سے بچنے کے لیے دوبارہ نماز پڑھادی گئی۔ اعادۂ صلوٰۃ کے بعد بعض علماء نے کہا کہ جب پہلی نماز ہوچکی تھی تو دوسری نماز نفل ہوئی اور اقتداء المفترض بالمتنفل درست نہیں، لہٰذا اس دوسری نماز میں جو لوگ شریک ہوئے ان کی نماز نہیں ہوئی۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ معروضی حالات کے پیشِ نظر امام کا دوبارہ نماز پڑھانا درست تھا یا نہیں؟ اور اس اعاده شده نماز کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ بھول کر ترکِ واجب کی وجہ سے اعادہ کردہ نماز کے بارے میں فقہائے احنافؒ کی عبارتیں مختلف ہیں، بعض فقہاءؒ کے نزدیک اعادہ کردہ نماز مستقل فرض نماز ہے، چنانچہ علامہ شامیؒ نے اعادہ کردہ نماز کے بارے میں تفصیلی بحث فرمانے کے بعد لکھا ہے:

"فإذا أعادها وقعت فرضا مكملا للفرض الأول، نظير إعادة الصلاة المؤداة بكراهة؛ فإن كلا منهما فرض، كما حققناه في محله." [رد المحتار (332/6)].

اسی طرح علامہ حسن ابن عمار الشرنبلالیؒ نے اعادہ کردہ نماز کے مستقل فرض ہونے کا ذکر "قیل" کے ساتھ کیا ہے:

"(وإن كان تركه) الواجب (عمدا أثم ووجب) عليه (إعادة الصلاة) تغليظا عليه (لجبر نقصها)، فتكون مكملة، وسقط الفرض بالأولى، وقيل: تكون الثانية فرضا، فهي المسقطة." [مراقي الفلاح (ص:197)].

لیکن اکثر فقہائے احنافؒ کے نزدیک فریضہ تو پہلی نماز سے ادا ہوگیا، البتہ اس کی تکمیل اعادہ کردہ نماز سے ہوگی، لہٰذا وہ حضراتؒ اعادہ کردہ نماز کو نفلِ جابر قرار دیتے ہیں، ذیل میں چند اقوال ملاحظہ ہوں:

"كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها،  والمختار أنه جابر للأول." [الدر المختار (457/1)].

"أما الصلاة المعادة لارتكاب مكروه أو ترك واجب، فلا شك أنها جابرة لا فرض؛ لقولهم بسقوط الفرض بالأولى." [الأشباه والنظائر (ص:49)].

"والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لا يتكرر." [حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص:165)].

"والصلاة المعادة تكون نافلة، وهذا قول الحنفية والحنابلة، وهو قول الشافعي في الجديد؛ لأن الفرض لا يتكرر في وقت واحد." [الموسوعة الفقهية الكويتية (174/27)].

مذکورہ بالا دونوں طرح کے اقوال موجود ہونے کی وجہ سے کتبِ فتاویٰ میں تطبیق کی یہ صورت بیان کی گئی ہے کہ وہ نو وارد شخص جسے نماز کے اعادے کا علم ہو تو اس نماز میں شمولیت سے اس کا فریضہ ساقط نہیں ہوگا، چنانچہ مسبوق کے لیے ایسی نماز میں شرکت جائز نہیں ہے۔ اور اگر نو وارد شخص کو اعادۂ نماز کا علم نہ ہو اور وہ اُس نماز میں شامل ہو جائے تو اس کا فریضہ ساقط ہو جائے گا۔ (فتاویٰ قاسمیہ، 552/7)۔

البتہ مفتی رشید احمد صاحبؒ نے پہلے قول کو زیادہ مناسب قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ چونکہ شریعت میں "اعادہ" کا مطلب ہے ذات میں یکسانیت کے ساتھ کمالِ صفات کے ساتھ اس کو دوبارہ ادا کرنا، لہٰذا اعادہ کردہ نماز کی حیثیت فرض یا واجب کی ہوگی، نیز جن فقہاءؒ نے اسے نفل قرار دیا ہے وہاں بھی نفل کو واجب کے معنیٰ میں لیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس کی نظیر کتبِ فقہ میں موجود ہے، مثلاً: وتر کی نماز واجب ہے، لیکن اس کو نوافل کے باب میں ذکر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ نماز جس کو مکلف شخص اپنے عمل سے لازم کرتا ہے، جیسے: نذر کی نماز یا طواف کے بعد کی دو رکعت نماز، ان کو بھی نفل کہہ دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ سب واجب نمازیں ہیں۔ لہٰذا پہلی نماز جس میں ترکِ واجب ہوا، اور سجدۂ سہو سے اس کی تلافی نہیں ہوئی، وہ فرض ناقص ہے، اور اعادہ شدہ نماز کامل صفات کے ساتھ ادا شدہ فرض ہے۔ (احسن الفتاویٰ، 351/3)۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں دفعِ حرج کے لیے حضرت مفتی رشید احمد صاحبؒ کی تحقیق کے مطابق دوسری نماز کو کامل صفات کے ساتھ ادا شدہ فرض قرار دینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، چنانچہ اُس میں شریک تمام لوگوں کی اقتداء درست ہوگی۔

حوالہ جات
مراقي الفلاح لحسن بن عمار بن علي الشرنبلالي المصري الحنفي (ت:١٠٦٩هـ) (ص:130):
"ولزوم سجود السهو لنقص الصلاة بتركه سهوا، وإعادتِها بتركه عمدا، أو سقوط الفرض ناقصا، إن لم يسجد ولم يعد."
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح لأحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي (ت:١٢٣١هـ) (ص:165):
"قوله: (وإعادتها بتركه عمدا) أي ما دام الوقت باقيا، وكذا في السهو إن لم يسجد له. وإن لم يعدها حتى خرج الوقت، تسقط مع النقصان وكراهة التحريم، ويكون فاسقا آثما. وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم. والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لا يتكرر، كما في الدر وغيره."
الدر المختار (92/2):
"(والسهو في صلاة العيد والجمعة والمكتوبة والتطوع سواء)، والمختار عند المتأخرين عدمه في الأوليين؛ لدفع الفتنة، كما في جمعة. البحر وأقره المصنف وبه جزم في الدرر."
رد المحتار (392/5):
"(قوله: عدمه في الأوليين) الظاهر أن الجمع الكثير فيما سواهما كذلك، كما بحثه بعضهم. ط. وكذا بحثه الرحمتي، وقال: خصوصا في زماننا. وفي جمعة حاشية أبي السعود عن العزمية أنه ليس المراد عدم جوازه، بل الأولى تركه؛ لئلا يقع الناس في فتنة."
البحر الرائق لزين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (ت:٩٧٠هـ) (84/2):
"قد قسم الأصوليون المأمور به إلى أداء وإعادة وقضاء: فالأداء ابتداء فعل الواجب في وقته المقيد به، سواء كان ذلك الوقت العمر أو غيره ... والإعادة فعل مثله في وقته لخلل غير الفساد وعدم صحة الشروع، وهو المراد بقولهم: كل صلاة أديت مع كراهة التحريم فسبيلها الإعادة، فكانت واجبة، فلذا دخلت في أقسام المأمور به."
منحة الخالق لابن عابدين (84/2):
"الإعادة في عرف الشرع: إتيان بمثل الفعل الأول على صفة الكمال، بأن وجب على المكلف فعل موصوف بصفة الكمال فأداه على وجه النقصان، وهو نقصان فاحش، يجب عليه الإعادة، وهو إتيان مثل الأول ذاتا مع صفة الكمال اهـ. يفيد أنه إذا فعل ثانيا في الوقت أو خارج الوقت يكون إعادة، كما قال صاحب الكشف اهـ."
رد المحتار لمحمد أمين، الشهير بابن عابدين (ت:١٢٥٢هـ) (65/2):
"[تنبيه]: يؤخذ من لفظ الإعادة ومن تعريفها بما مر أنه ينوي بالثانية الفرض؛ لأن ما فعل أولا هو الفرض، فإعادته فعله ثانيا؛ أما على القول بأن الفرض يسقط بالثانية فظاهر، وأما على القول الآخر فلأن المقصود من تكريرها ثانيا جبر نقصان الأولى، فالأولى فرض ناقص، والثانية فرض كامل مثل الأولى ذاتا مع زيادة وصف الكمال. ولو كانت الثانية نفلا، لزم أن ‌تجب ‌القراءة ‌في ‌ركعاتها الأربع، وأن لا تشرع الجماعة فيها، ولم يذكروه. ولا يلزم من كونها فرضا عدم سقوط الفرض بالأولى؛ لأن المراد أنها تكون فرضا بعد الوقوع، أما قبله فالفرض هو الأولى.
وحاصله: توقف الحكم بفرضية الأولى على عدم الإعادة، وله نظائر كسلام من عليه سجود السهو يخرجه خروجا موقوفا، وكفساد الوقتية مع تذكر الفائتة، كما سيأتي، وكتوقف الحكم بفرضية المغرب في طريق المزدلفة على عدم إعادتها قبل الفجر، وبهذا ظهر التوفيق بين القولين؛ وأن الخلاف بينهما لفظي؛ لأن القائل أيضا بأن الفرض هو الثانية أراد به بعد الوقوع؛ وإلا لزم الحكم ببطلان الأولى بترك ما ليس بركن ولا شرط، كما مر عن الفتح، ولزم أيضا أنه يلزمه الترتيب في الثانية لو تذكر فائتة، والغالب على الظن أنه لا يقول بذلك أحد، ونظير ذلك القراءة في الصلاة، فإن الفرض منها آية والثلاث واجبة والزائد سنة، وما ذاك إلا بالنظر إلى ما قبل الوقوع، بدليل أنه لو قرأ القرآن كله في ركعة يقع الكل فرضا، وكذا لو أطال القيام أو الركوع أو السجود. هذا نهاية ما تحرر لي من فتح الملك الوهاب، فاغتنمه، فإنه من مفردات هذا الكتاب، والله تعالى أعلم بالصواب."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

22/محرم الحرام/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے