021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بڑے بھائی کے کاروبار میں دیگر بھائیوں کی معاونت کا حکم
80876شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

زاہد نے کاروبار شروع کیا۔ کاروبار شروع کرنے کے 2 سال بعد زاہد نے اپنے بھائی ناصر کو کارو بار میں تبرّعاً شریک کرلیا اور زاہد نے کاروبار میں شریک کرتے وقت اپنے بھائی ناصر سے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ زاہد نے تقریباً 4 سال کے بعد اپنے تیسرے بھائی شریف کو بھی اپنے ساتھ کاروبار میں تبرّ عاًشریک کر لیا اور شریک کرتے وقت زاہد نے اپنے بھائی شریف کے ساتھ بھی کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ تینوں بھائی کاروبار میں تقریبا تیس پینتیس سال سےشریک ہیں اور بلا روک ٹوک ہر قسم کے اخراجات کر رہے ہیں۔کس بھائی نے کاروبار سے کتنے پیسے کمائے، کتنے پیسے لئے اور کہاں خرچ کئے کوئی کسی قسم کی پابندی کسی پر بھی نہیں تھی ۔ یہاں تک کہ ایک دوکان سے 12-10 دکانیں بن گئیں اور ابتداء میں سب سے پہلے جو جائیداد خریدی گئی وہ تینوں بھائیوں کے نام مشترک رجسٹرڈ ہے۔ تینوں بھائی 35-30 سال سے کاروبار میں مالکوں کی طرح تصرّف کرتے آرہے ہیں۔ اب تک جتنی بھی جائیداد وجود میں آئی وہ پہلی دکان جس میں تینوں بھائی مشترکہ طور پر محنت کرتے تھے وہ اُسی دکان کی آمدنی سے وجود میں آئیں ۔

 غور طلب امر یہ ہے کہ کاروبار اور جائیداد تینوں بھائیوں میں کس طرح تقسیم ہوگی۔ شریعت کی رُو سے جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بقولِ سائل اگر زاہد نے کاروبار شروع کرنے کے 2 سال بعد اپنے بھائی ناصر اور 4 سال بعد بھائی شریف کو اپنے کاروبار میں شریک کرتے وقت کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان کی طرف سے سرمایہ شامل تھا،تواس صورت میں موجودہ کاروبار زاہد کی ملکیت شمار ہوگا۔بھائی ناصر اور شریف اس کاروبار میں اپنے حقدار ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے، بلکہ ان کی حیثیت زاہد کے کاروبار میں معاون کی ہے۔

لیکن چونکہ ناصر اور شریف نے اپنے آپ کو شریک سمجھ کر محنت کی ہے اور کاروبار کے بڑھانے میں تعاون کیا ہے اس لئے زاہد اگر اپنی مرضی سے ان دونوں بھائیوں کو کچھ دیدے، تو صلہ رحمی کے ساتھ ساتھ بڑے اجر کا مستحق ہوگا،نیز اس میں بھی مناسب یہ ہے کہ اگر ناصر اور شریف کے درمیان لیاقت ومحنت کے لحاظ سے فرق ہو تو اس کو ملحوظ رکھے اور اگر ایسا کوئی خاص فرق نہ ہو تو دونوں کو برابر دے۔

حوالہ جات
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 18)
"قال علمائنا :أب وابن ‌يكتسبان ‌في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب۔"
رد المحتار( 6/ 4)
لا بد من إعلام ما يرد عليه عقد الإجارة على وجه ينقطع به المنازعة ببيان المدة والمسافة والعمل، ولا بد من إعلام البدل اهـ، وإلا كان العقد عبثا كما في البدائع۔

محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 13/محرم/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے