021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زمین کی فروخت کامسئلہ
81228خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرے بھائی نےایک شخص کومکان فروخت کیا،پیمائش، قیمت وغیرہ سب فائنل کی اورطےپایاکہ چھ مہینےمیں پیمنٹ کردےگا،کچھ دنوں کےبعد خریدار نےکہاکہ زمین کم ہے،پیمائش دوبارہ کریں گے، دوبارہ پیمائش پر دونوں متفق نہیں ہوئے، کچھ دنوں بعد خریدارنےکمرےوغیرہ گرادئےاور اس کی لکڑیاں وغیرہ بیچ دیں توبھائی نےاس سےکہاکہ اگر مقررہ وقت میں پیمنٹ نہیں کی توہمارا معاملہ ختم ہوگا،جب بھی دوبارہ سوداکرناہوگاتوالگ قیمت پر ہوگا،اس طرح سے مقررہ مدت ختم ہوگئی، لیکن پیمنٹ نہیں کی اور بغیر پیمنٹ کے کافی عرصہ بعد اس کا انتقال ہوگیا، اس انتقال کے بعد مکان کی کچھ لکڑیاں میرے بھائی نےبیچ دیں، اس طرح سے یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ، تقریباً دس سال ہوگئے ہیں، برائے مہربانی شرعی راہنمائی فرمائیں کہ مذکوہ صورت میں مکان کس کی ملکیت ہے؟ اگر خریدار کی ملکیت ہے تو مکان کی قیمت کا کیا بنے گا؟اور جو لکڑیاں بیچی گئی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟

تنقیحات: 1۔مکان اب کس کے قبضہ میں ہے؟

 2۔مکان کے کمرے گرانے کے بعد اب اس مکان میں کوئی تعمیر یا کوئی کمرہ وغیرہ بچاہے یا نہیں؟یا خالی زمین ہے؟

 3۔مشتری نے مقررہ مدت سے پہلے یا بعد میں مکان کی قیمت کے بارے میں کچھ اظہار کیا ہے کہ مکان کی قیمت وہ ادا کرے گا یا مکان کی قیمت اس کے ذمہ قرض ہے؟ یا اس نے مکان کی قیمت دینے سے انکار کردیاہے۔۔۔۔!

4۔مشتری کے انتقال کے بعد سائل کے بھائی نے اس مکان کی کچھ لکڑیاں کیوں بیچ دی تھیں؟ اگر اپنے آپ کو اس مکان کا مالک سمجھ کر بیچی تھیں تو اس وقت کسی نے کوئی اعتراض کیا تھا یا نہیں؟

 5۔مشتری کا کوئی وارث ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس وارث کا اس سلسلے میں کیا کہنا ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو اس کے انتقال کے بعد سے اب تک تقریباً دس سال سے یہ معاملہ کن لوگوں کے ساتھ الجھا ہواہے؟ اور ان کا کیا کہنا ہے

جواب تنقیح: 1۔ مکان پر اب بھائی اور مشتری کے بیٹے دونوں قبضہ سمجھتے ہیں۔

 2. مکان گرانے کےبعد اب دیواریں باقی ہیں۔

 3. مشتری نے مکان کی قیمت کاکوئی  اظہار نہیں کیا،البتہ یہ کہاہےکہ مکان اور زمین کی پیمائش کریں، پیمائش کئی  دفع کی، لیکن اس پردونوں راضی نہیں ہوئے ۔

 4. بھائی نے تنازع کےباوجود لکڑیاں بیچ دیں، لیکن اس کےبیٹوں نے اعتراض نہیں کیا،کرناچاہ رہےتھے،لیکن جھگڑے کے وجہ سے نہیں کیا۔

 5. مشتری کے بیٹے ہیں اور وہ بھی باپ والی بات کرتےہیں کہ مسئلہ حل کرواور پیمائش دوبارہ کرو۔

سائل نےوضاحت کی ہےکہ یہ شرط " کہ اگرمقررہ مد ت میں ادائیگی نہیں ہوئی تو دوبارہ سوداکرنا ہوگا"یہ عقدکےشروع میں نہیں تھی،بلکہ بعد میں لگائی گئی ہے،مشتری نےاس شرط کوتسلیم نہیں کیاتھا،بلکہ وہ یہ کہتارہاتھاکہ دوبارہ پیمائش کرو،لیکن اس پردونوں کااتفاق نہیں ہوسکاتھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شروع میں جب قیمت طے ہوگئی،ادائیگی کی مدت بھی طےکردی گئ  اوربعدمیں خریدارنےمکان کےکمرے وغیرہ بھی گرادیےاورلکڑی بھی بیچ دی توسابقہ خریدوفروخت شرعا مکمل شمارہوگی،کیونکہ مسئلہ یہ ہےکہ اگرمشتری خریدنےکےبعد مبیع میں تصرف کردےتومشتری کاقبضہ ہوجاتاہے،موجودہ صورت میں بھی چونکہ مشتری نےخودایساتصرف کرلیا،جوعام طورپراپنی ملکیت میں کیاجاتاہے،اس لیےیہ بیع شرعامکمل شمار ہوگی۔

بائع کی طرف سےیہ شرط کہ اگرمقررہ مدت میں ادائیگی نہیں ہوئی تو دوبارہ سوداکرنا ہوگا،چونکہ مشتری اس شرط پرراضی نہیں تھا،اس لیےاس شرط کااعتبارنہیں ہوگا۔

موجودہ صورت میں چونکہ مشتری کاانتقال ہوگیاہےاوروہ بیع اس وقت مکمل ہوگئی تھی ،صرف ثمن کی ادائیگی باقی تھی تویہی عقداس کےورثہ میں چلےگایعنی اس کےبیٹوں پر اس عقد کومکمل کرنالازم ہوگا،یعنی عقدکےوقت جو رقم طے ہوئی تھی، مشتری کےبیٹوں پراسی رقم کی ادائیگی لازم ہوگی۔۔۔

البتہ مذکورہ صورت میں چونکہ بیع کوکافی عرصہ ہوگیاہےاوراس وقت کی قیمت کی موجودہ وقت میں کوئی خاص ویلیوباقی نہیں رہی،اس لیےبائع اس قیمت پردینےپرراضی نہ ہوگا،اس لیےورثہ کوچاہیےکہ اس کےساتھ صلح کرکےکسی مناسب قیمت پراس کو راضی کرکےاس پراس سےمکان لیں،تاکہ اس مکان کےدیانۃ حلال ہونےمیں کوئی شبہہ باقی نہ رہے۔

حوالہ جات
"الفتاوی الھندیۃ"4/6:
وقالوا أیضاً:ولو باعہ و سکت عن الثمن،یثبت الملک إذا اتصل بہ القبض فی قول أبی یوسف و محمد رحمھما اللہ کذا فی الخلاصۃ.ویلزم علی البائع قیمۃ العبد۔
"ردالمحتار"1/260:
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: فإن البيع لو صحيحا وجب الثمن، ولو فاسدا وتعذر رده على البائع وجبت قيمته۔
"فقه البیوع" 1/65:
ان عقد البیع یتم بتمام الایجاب والقبول وھذا امر لا یختلف فیه اثنان۔
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام "2 / 71:
( المادة 295 ) إذا قبض المشتري المبيع ثم مات مفلسا قبل أداء الثمن فليس للبائع استرداد المبيع بل يكون مثل الغرماء ۔
وكذلك ليس له أن يطالب ببدله فيما إذا تلف أو باعه من آخر وكل هذا فيما إذا كان الثمن مؤجلا وبعبارة أخرى يباع المبيع ويقسم بدله مع سائر أمواله على غرمائه حسب ديونهم لأن البائع بتسليمه المبيع إلى المشتري قد أبطل حق حبسه للمبيع ( انظر المادة 281 )
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام " 2 / 71:
والمراد من المفلس هنا الذي ليس له مال يسد جميع ديونه سواء أحكم الحاكم بإفلاسه قبلا أم لم يحكم ( رد المحتار )
توضيح القيود : - قيل ( بإذن البائع ) وذلك لأن المشتري إذا قبض المبيع بغير إذن البائع ولم يجز البائع هذا القبض ولم يسقط حق حبس المبيع ثم مات المشتري مفلسا فبما أن هذا القبض حسب المادة 277 ليس معتبرا فللبائع أن يسترد المبيع ويحبسه لاستيفاء الثمن وقيل ( إذا كان الثمن مؤجلا ) لأنه إذا كان معجلا فالبائع أحق بالمبيع من غيره بالإجماع۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

17/صفر      1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے