021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وقف مسجد لاعلمی میں منہدم کرکے اس کی جگہ فیکٹری میں شامل کرنا
81113وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

         ایک  فیکٹری مالکان نے اپنی فیکٹری کی برابروالی فیکٹری خریدی، مقصد اس سے اپنی فیکٹری کو مزید وسعت دیناتھا، خریدی جانے والی فیکٹری میں ایک وقف مسجد بھی تھی جس کی دیوار اوردروازہ عام آمدورفت والی سڑک سے تھااوراس کے اوپر نیچے اورتعمیرنہیں تھی، نمازوں کے اوقات میں سڑک والا دروازہ کھول دیاجاتاتھا اورعام مسلمان بغیر کسی اجازت اور رکاوٹ کے مسجد میں داخل ہوکر اللہ کی عبادت کرتے تھے، اس میں پانچ وقت  آذان اورنمازباجماعت ہوتی تھی، ایک بڑی تعداد عام مسلمانوں کی نماز اورتراویح کےلیے اس میں آتی تھی، ایک باشرع امام ان تمام کاموں پر تنخواہ پر مقرررتھاجس فیکٹری کے مالکان نے برابر والی فیکٹری خریدی انہوں نے خریدی جانے والی فیکٹری کو مسمارکرکے اپنی فیکٹری  میں شامل کرلیا،ایک صاحب کو مسجد کے بارے میں معلومات کے لئےبھیجاجوکہ درست معلومات فراہم نہیں کرسکااورغلط معلومات یا غلط فہمی کی وجہ سے اس مسجد کوبھی انہوں نے شہید کرکے فیکڑی میں شامل کرلیا،فیکٹری کی تعمیر تو اس پر نہیں کرائی گئی مگرفیکٹری کے دیگرکام مثلاً رسپشن وغیرہ کےکام وہاں ہوتےہیں، یہ عمل نادانستگی میں اورغلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے لہذا یہ فرائیں کہ اس مسجد کی جگہ کو فیکٹری میں شامل رہنے دیاجائے یا مسجد بحال کی جائے ؟ اورکتنا فدیہ یا ہدیہ دینا ہوگا اورکیاتوبہ اوراستغفاربھی کیاجائے گا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب مذکورہ جگہ کو پہلے فیکٹری مالکان نے باقاعدہ الگ کرکے مسجد کے لیے وقف کردی تھی اوراس پر مسجد بناکر اس میں نمازیں بھی ہوتی رہیں تو  یہ وقف  شرعاً درست ہوگیا تھا اوریہ جگہ شرعی مسجد بن گئی تھی ،صرف مصلی نہیں تھا،  اس لیے اس میں دوسرے فیکٹری کے مالکان کےلیے کسی قسم کے مالکانہ تصرف  کرناجائز نہیں  تھا،یہ جگہ مسجدہوگئی تھی اور ہمیشہ مسجد ہی رہے گی،لہذا دوسرے فیکٹری مالکان پر لازم تھاکہ وہ اچھی  طرح تحقیق کرتے اورمسجد کی جگہ کواپنی فیکڑی میں شامل نہ کرتےجوانہوں کیا وہ شرعا درست نہیں ہے، لہذافوری طورپر مسجد کی جگہ سے فیکٹری کا کام ختم کرکے اس کوحسبِ سابق مسجد کے بطورپر بحال کیاجائے اور جوغفلت ان مالکان سے ہوئی ہے(کہ انہوں نےصحیح طورپرتحقیق نہیں کی اورمسجد مسمارکردی) اس پراللہ کے حضور توبہ واستغفارکریں اورصدقہ کرنا چاہیں وہ بھی کریں اور آئندہ کے لئے اس مسجد کو بحال کرکے اس کا پورا احترم کریں۔

حوالہ جات
وفی الشامیة:
"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله: جعلته مسجدًا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه).
(قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه) أي مع الإفراز كما علمته واعلم أن الوقف إنما احتيج في لزومه إلى القضاء عند الإمام؛ لأن لفظه لاينبئ عن الإخراج عن الملك، بل عن الإبقاء فيه، لتحصل الغلة على ملكه، فيتصدق بها بخلاف قوله: جعلته مسجدا، فإنه لاينبئ عن ذلك ليحتاج إلى القضاء بزواله، فإذا أذن بالصلاة فيه، قضى العرف بزواله عن ملكه، ومقتضى هذا أنه لايحتاج إلى قوله وقفت ونحوه وهو كذلك وأنه لو قال وقفته مسجدًا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لايصير مسجدًا بلا حكم وهو بعيد، كذا في الفتح ملخصًا. ولقائل أن يقول: إذا قال: جعلته مسجدًا فالعرف قاض، وماض بزواله عن ملكه أيضًا غير متوقف على القضاء، وهذا هو الذي ينبغي أن لايتردد فيه نهر
وفي الدر المنتقى: وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف، وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء. اهـ. قلت: يلزم على هذا أن يكتفى فيه بالقول عنده، وهو خلاف صريح كلامهم، تأمل".  (4/ 355، کتاب الوقف، ط: سعید)
لما قال العلامۃ الحصکفیؒ:
یبقیٰ مسجدًا ابدًا الٰی قیام السّاعۃ وبہٖ یفتی۔ وقال ابن عابدینؒ فلایعود میراثًا ولایجوز نقلہ ونقل مالہ الٰی مسجد آخر سواء کانوا یصلون فیہ اولاوھو الفتویٰ:(الدرالمختارعلی صدرالمحتار:ج؍۴،ص؍۳۵۸ کتاب الوقف ، مطلب فیما لوخرب المسجد او غیرہ)
وقال العلامۃ ابوبکر الکاسانیؒ:
وأما  الذی یرجع إلی نفس الوقف فہو التأبید  وهو أن یکون مؤبدا حتی لو وقت لم یجز لأنہ إزالۃ الملک لا إلی حد.(بدائع الصنائع:ج؍۶،ص؍۲۲۰ کتاب الوقف والصدقۃ، فصل واما شرائط الجواز)ومثلہ فی الھدایۃ:ج؍۲،ص؍۶۳۹ کتاب الوقف.   
وفی الھدایة مع الفتح- (ج 6 / ص 205)
واذا صح الوقف لم یجز بیعہ ولاتملیکہ.
فتح القدير - (ج 14 / ص 123)
والحاصل أن الاستبدال إما عن شرطه الاستبدال وهو مسألة الكتاب أو لا عن شرط ، فإن كان لخروج الوقف عن انتفاع الموقوف عليهم به فينبغي أن لا يختلف فيه كالصورتين المذكورتين لقاضي خان ، وإن كان لا لذلك بل اتفق أنه أمكن أن يؤخذ بثمن الوقف ما هو خير منه مع كونه منتفعا به فينبغي أن لا يجوز ؛ لأن الواجب إبقاء الوقف على ما كان عليه دون زيادة أخرى ، ولأنه لا موجب لتجويزه لأن الموجب في الأول الشرط وفي الثاني الضرورة ، ولا ضرورة في هذا إذ لا تجب الزيادة فيه بل تبقيته كما كان.
وفی اعلاء السنن- (ج 13 / ص 214)
والفرق بینھاوبین المساجدان المساجد لاتبطل بخرابھا او خراب ماحولہاواستغناء عنھا الجھة التی عینت لہ لانھا لم تجعل مساجد لاھل المحلة والقریة بل للعامة ولایشترط للمسجدیة البناء بل العرصة وحدھا مسجد کمالایخفی بخلاف سائر الاوقاف التی سلبت ثمرتھاالخ.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

6/2/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے