021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کے سسرال جانے پر تین طلاقوں کو معلق کرنا
81159طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

سمیر ا (فرضی نام ) کی شادی ارشد سے ہوئی ، سمیرا کی والدہ یعنی لڑکے کے سسرال والوں نے اس نئے جوڑے کو اپنے گھر کے قریب رہائش اختیار کرنے کا کہا جس پر وہ مان گئے اور ارشد نےسمیرا کے ساتھ سمیراکے والدین کے گھر کے قریب رہائش اختیار کرلی، اس دوران پانچ چھ سال کا عرصہ گذرگیا ،لیکن ساتھ میں ارشد اخلاقی طورپر بگڑ گیا اور مختلف قسم کےنشے بھی شروع کردیئے اور گھر میں سمیرا کے ساتھ لڑنے جگڑنے لگا اور ساتھ میں معلق بالشرط  ایک ساتھ تین طلاقیں بھی دے دیں ( ارشد نے کہاکہ سمیرا اگر میرے والدین یعنی لڑکی اگر اپنے سسرال کے گھر گئی تو اس کو تین طلاقیں ہوں اور بعد میں ارشدکا والد لڑکی یعنی سمیرا کو اپنے گھر اپنے ساتھ لے کر گیا ہے )

اور اس کے بعد دونوں خاندانوں نے جرگے کے ذریعے اس پر تفاق کیا کہ جھگڑے کو ختم کیاجائے، پھر لڑکی کو والدین کے قریب  گھر لے کر دیا جس میں میاں بیوی رہ رہے تھے،اس دوران دو بچے بھی پیدا ہوگئے،لیکن لڑکے کو نشے کی لت لگ گئی تھی اوروہ گھر میں سمیرا کو مارتا تھا اور گھر میں جو بھی سامان ملتاتھا تو اس کو بازار میں بیچ دیتا تھا اور اپنے لئےنشے کا سامان خریدتا تھا اور اس دوران جب کبھی اس کو پیسے نہیں ملتے تھے اور گھر میں لڑائی جگڑا ہوتاتھا تو چار پانچ دفعہ پھر لڑکی کو طلاق دے چکا ہے ۔

اب جب سارا معاملہ ہوگیا ہے تو لڑکا اور اس کا خاندان اس طلاق سے انکاری ہیں اور اس کو چھپارہے ہیں تو اس صورت میں یہ معلوم کرناہے کہ آیا یہ طلاق مغلظ ہوگئی یا نہیں اور جب لڑکے والے اس طلاق کو چھپار ہے ہیں ،تاکہ ہماری بدنامی نا ہو تو اس کا کیا  ہوگا،  مکمل مسئلے کی وضاحت فرماکر ممنون فرمائیں ۔

تنقیح: واضح رہے کہ لڑکی اپنے سسر کے ساتھ سسرال اپنی رضامندی سے گئی تھی،سسر نے جانے پر مجبور نہیں کیا تھا،نیز دونوں بچے تین طلاقوں کی شرط پائی جانے سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصل جواب سے پہلے آپ چند باتیں سمجھ لیں:

1۔ نشے کی حالت میں بھی شرعا طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

2۔وقوعِ طلاق کے لئے گواہوں کا الفاظِ طلاق کو سننا شرط نہیں،بلکہ اس کے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

3۔ طلاق کے معاملے میں عورت کی خود اپنی حیثیت قاضی جیسی ہے،لہذااگر وہ خود شوہر کے منہ سے طلاق کے الفاظ سنے یا کوئی معتمد شخص اسے خبر دے کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دی ہے تو اس کے بعد بیوی کے لئے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔

لہذا مذکورہ صورت میں شوہر کی جانب سے لڑکی کے سسرال جانے پر تین طلاقوں کو معلق کئے جانے کے بعد جب لڑکی اپنے سسرال گئی تو اسے تین طلاقیں واقع ہوگئیں،جس کے بعد میاں بیوی کا دوبارہ ایک ساتھ رہنا جائز نہ تھا،اس لئے اس کے بعد سے اب تک جتنا عرصہ یہ دونوں ساتھ رہے ہیں اس شنیع عمل پر صدقِ دل سے ندامت کے ساتھ کثرت سے توبہ و استغفار لازم ہے اور آئندہ کے لئے فوری طور پر ایک دوسرے سے علیحدگی لازم ہے۔

نیز جب لڑکی نے شوہر کے منہ سے تعلیق کا یہ جملہ(سمیرا اگر میرے والدین کے گھر گئی تو اس کو تین طلاقیں ہوں) اور اس کے علاوہ مختلف موقعوں پر بولے جانے والے طلاق کے جملے خود سنے ہیں تو اس کے بعد اب اس کے لئے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں،شوہر پر لازم ہے کہ عورت کا پیچھا چھوڑدے،لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو عورت قانونی طور پر تحفظ حاصل کرنے کے لئے عدالت سے خلع کی ڈگری کے لئے بھی رجوع کرسکتی ہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 235):
"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق".
"فتح القدير" (8/ 17):
" وكل ما لا يدينه القاضي إذا سمعته منه المرأة أو شهد به عندها عدل لا يسعها أن تدينه لأنها كالقاضي لا تعرف منه إلا الظاهر".
"رد المحتار"(3/ 251):
"والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه".
"الدر المختار " (3/ 355):
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا".
"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ": (ج 3 / ص 285) :
"( فإن وجد الشرط فيه ) أي في الملك بأن كان النكاح قائما أو كان في العدة (انحلت اليمين ووقع الطلاق ".
"الدر المختار " (3/ 409):
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب (لا) ينكح (مطلقة) من نكاح صحيح نافذكما سنحققه (بها) أي بالثلاث (لو حرة وثنتين لو أمة) ولو قبل الدخول، وما في المشكلات باطل، أو مؤول كما مر (حتى يطأها غيره ولو) الغير (مراهقا) يجامع مثله".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

13/صفر 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے