021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرمت کیے سامان کو بیچنا
81167اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

میری دکان پر الیکٹرک سامان مرمت کیلئے آتا ہے تو اسکی مرمت پر بعض اوقات اسکی موجودہ قیمت سے بھی زیادہ خرچ آجاتا ہے اور گاہک وہ سامان لینے واپس نہیں آتا، اس سامان پر میرا خرچہ بھی ہوتا ہے ۔ میری دوکان بھی کرایہ پر ہے اور میرے پاس جگہ نہیں کہ اس سامان کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھوں، کیا میں اس سامان کو فروخت کر سکتا ہوں ؟ اس بارے میں راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مرمت کے لیے دیا ہوا سامان مستری کے پاس امانت ہوتا ہے ، مالک کی اجازت کے بغیر اسے بیچنا جائز نہیں ہے۔ مالک کا مرمت کے لیے سامان دے کر کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود چیز واپس لینے نہ آنے کی صورت میں مستری حتی الوسع مالک یا اس کے متعلقین سے رابطے کی کوشش کرے، رابطہ نہ ہو سکنے اور دوکان میں چیز کو لمبے عرصے کے لیے حفاظت سے رکھنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مستری  مارکیٹ کے چند بااثر اور دیندار افراد کے سامنے یہ معاملہ رکھ کر ان کی متفقہ اجازت سے سامان بیچ کر اپنی مزدوری اور خرچہ وصول کرلے۔

             مزدوری کی رقم کے علاوہ سامان کی کچھ اضافی رقم بچی ہو اور مستری حتی الوسع  ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اصل مالک اور اس کے ورثاء کے  ملنے سے مایوسی ہوجائے اور رقم اپنے پاس محفوظ رکھنا مشکل ہو تو یہ بھی جائز ہے کہ اس رقم کو اس کے اصل مالک کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے، اگر خود زکاۃ  کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتا ہے، البتہ صدقہ کر دینے کے بعد اگر اصل مالک لوٹ آئے  اور اپنی رقم کا مطالبہ کرے تو  اُس کے مطالبہ پر اس کی رقم واپس کرنا لازم ہوگا۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (30/ 306):
"إذا باع الرجل جارية من رجل ثم غاب المشتري ولا يدري أين هو فرفع الأمر إلى القاضي وطلب منه أن يبيع الجارية ويوفي ثمنه فإن القاضي لا يجيبه إلى ذلك قبل إقامة البينة فإن أقام البينة على ذلك ذكر أن القاضي يبيع الجارية على المشتري وينقد الثمن على البائع ويستوثق من البائع بكفيل ثقة ثم إن كان فيه وضيعة فعلى المشتري وإن كان فيه فضل فللمشتري."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (5/ 230):
"(اشترى شيئا) منقولا، إذ العقار لا يبيعه القاضي (وغاب) المشتري (قبل القبض ونقد الثمن غيبة معروفة فأقام بائعه بينة أنه باعه منه لم يبع في دينه) لإمكان ذهابه إليه (وإن جهل مكانه بيع) المبيع: أي باعه القاضي أو مأموره نظرا للغائب وأدى الثمن وما فضل يمسكه للغائب، وإن نقص تبعه البائع إذا طفر به."
المبسوط للسرخسي (16/ 332):
"رجل باع جارية من رجل ثم غاب المشتري ولا يدري أين هو فأقام البائع على ذلك بينة فإن القاضي يسمع بينته لأنه يزعم أنه قد وجب على القاضي النظر له وللمفقود في ماله فإذا أثبت ذلك بالحجة قبل القاضي ذلك منه وباع الجارية على المشتري بطريق حفظ ملكه عليه لأن عين الملك لا تبقى له بدون النفقة وحفظ الثمن أيسر عليه من حفظ العين فإذا باعها نقد البائع الثمن لأنه ظفر بجنس حقه من مال غريمه واستوثق منه بكفيل نظرا منه."
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر(1/708):
"وللملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو) كان (فقيرا) لأن صرفه إلى فقير آخر كان للثواب وهو مثله."
الفتاوى الهندية (2/ 289):
"إذا رفع اللقطة يعرفها فيقول: التقطت لقطة، أو وجدت ضالة، أو عندي شيء فمن سمعتموه يطلب دلوه علي، كذا في فتاوى قاضي خان. ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين."

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

11/صفر الخیر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے