021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرضے کو بیچنے کا حکم
81615خرید و فروخت کے احکام دین )معاوضہ جو کسی عقدکے نتیجے میں لازم ہوا(کی خرید و فروخت

سوال

میرا قسطوں پر چیزیں دینے کا کاروبار ہے، لوگوں پر میرا پچاس لاکھ روپے قرض ہے، جو مجھے لوگوں سے لینا ہے۔ میں اپنے اس کاروبار کو بعوض ایک روپے کے بارہ آنے پر بیچنا چاہتا ہوں، کیا میں  کم قیمت پر اس کاروبار کو بیچ سکتا ہوں؟ اسی طرح کیا میں قرضے کے برابر قیمت پر اسے بیچ سکتا ہوں؟اور اگر زیادہ قیمت پر بیچوں تو کیا  زیادتی کے ساتھ فروخت کر سکتا ہوں؟ تینوں صورتوں کی کیا حیثیت ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وہ تمام قرض جو لوگوں  کے ذمے ہے، اس کے بدلے دوسرے شخص سے بطورِ بیع نقد رقم کمی بیشی کے ساتھ لینے میں دو بڑی خرابیاں ہیں، ایک یہ کہ اس میں تمام قرض کسی ایسے شخص کو بیچا جارہا ہے، جو خود اس کے ذمے لازم نہیں ہے، یعنی اس میں بیع الدین من غیر من علیہ الدین کی خرابی ہے، جو شریعت کی نظر میں ناجائز ہے، اور دوسری خرابی یہ ہےکہ اس میں رقم کی کمی بیشی کرنے سے سود لازم آتا ہے، جو کہ حرام ہے ، البتہ دائن کو پیسوں کی سخت ضرورت ہو  اور کسی اور ذریعے سے پیسے ملنا ممکن نہ ہوتو (بطور ِ حوالہ ) کسی تیسرے شخص کو بغیر کمی بیشی کے اتنی رقم کے عوض دیدینے  کی گنجائش ہے۔

            بوقت ضرورت متبادل کے طور پر یہ صورت  بھی اختیار کی جا سکتی ہے کہ جو  دکان دار اپنا کاروبار سمیٹنا یا بیچنا چاہتا ہو،لیکن کسٹمرز کے ذمے فی الحال قرضے باقی ہوں، تو وہ ان قرضوں کو کسٹمرز سے وصول کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کو اجرت (مثلاً بیس ہزار جو نقد رقم ہو ) پر وکیل بنادے، اور پھر اس سے اتنا قرض لے لے، جتنا قرض (مثلاً ایک لاکھ ) کسٹمرز کے ذمے باقی ہے، اور پھر اس سے یہ کہے کہ آپ کسٹمرز سے میرا قرض وصول کرکے اپنے پاس رکھ لیں، اس قرض کے بدلے جو میں نے آپ سے لیا ہے، لیکن مذکورہ بالا متبادل طریقہ اختیا ر کرتے ہوئے تین باتوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے، اور وہ تین باتیں درجِ ذیل ہیں :

 1: یہ کہ وکالت کے معاملے میں قرض دینے کی شرط نہ لگائی جائے، بلکہ الگ طور پر قرض کا معاملہ کیا جائے۔

 2 : یہ کہ وکالت کی اجرت کسٹمرز کے ذمے موجود قرضوں سے متعین نہ کی جائے۔

3 :یہ کہ اگر وکیل کو کسٹمرز سے قرضے موصول نہ ہو ،تو وہ مؤکل (یعنی دکاندار ) سے اپنا قرضہ وصول کرے گا ۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع  (كتاب البيوع 148/5)
ولا ينعقد بيع الدين من غير من عليه الدين؛ لأن الدين إما أن يكون عبارة عن مال حكمي في الذمة، وإما أن يكون عبارة عن فعل تمليك المال وتسليمه، وكل ذلك غير مقدور التسليم في حق البائع، ولو شرط التسليم على المديون لا يصح أيضا؛ لأنه شرط التسليم على غير البائع فيكون شرطا فاسدا فيفسد البيع، ويجوز بيعه ممن عليه؛ لأن المانع هو العجز عن التسليم، ولا حاجة إلى التسليم ههنا، ونظير بيع المغصوب أنه يصح من الغاصب، ولا يصح من غيره إذا كان الغاصب منكرا، ولا بينة للمالك.
مجلة مجمع الفقه الإسلامي (11/ 36) بيع الدين والأوراق المالية وبدائلها الشرعية إعداد  القاضي محمد تقي العثماني قاضي القسم الشرعي للمحكمة العليا  بباكستان
البدائل الممكنة لبيع الدين :
تبين بما تقدم أن الأوراق المالية التي تمثل ديونًا في ذمة مصدرها، مثل السندات والكمبيالات، لا يجوز تداولها إلا بمبلغ مساو لقيمتها الاسمية. ثم هذا التداول بقيمتها الاسمية يمكن أن تكون على طريق البيع عند المالكية وبعض الشافعية بشروط مر ذكرها، ولا يجوز على طريق البيع عند الحنفية والحنابلة............ وإن هذه السندات ( أي : سندات القروض )لا يجوز بيعها في السوق بثمن أكثر أو أقل لما قدمنا من منع بيع الدين بالتفاضل، ولكن يمكن أن تسيل هذه السندات بمثل قيمتها على أساس الحوالة.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (ص  24)
وإن خصم الكمبيالة بهذا الشكل غير جائز شرعا، إما لكونه بيع الدين من غير من عليه الدين، أو لأنه من قبيل بيع النقود بالنقود متفاضلة ومؤجلة، وحرمته منصوصة في أحاديث ربا الفضل.
ولكن هذه المعاملة يمكن تصحيحها بتغيير طريقها وذلك أن يوكل صاحب الكمبيالة البنك باستيفاء دينه من المشتري (وهو مصدر الكمبيالة) ويدفع إليه أجرة على ذلك، ثم يستقرض منه مبلغ الكمبيالة، ويأذن له أن يستوفي هذا القرض مما يقبض من المشتري بعد نضج الكمبيالة، فتكون هناك معاملتان مستقلتان: الأولى معاملة التوكيل باستيفاء الدين بالأجرة المعينة، والثانية: معاملة الاستقراض من البنك، والإذن باستيفاء القرض من الدين المرجو حصوله بعد نضج الكمبيالة، فتصح كلتا المعاملتين على أسس شرعية، أما الأولى، فلكونها توكيلا بالأجرة، وذلك جائز، وأما الثانية، فلكونها استقراضا من غير شرط زيادة، وهو جائز أيضا.

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

14/ربیع الثانی/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے