021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نماز میں عورت کے سجدہ کرنے کا طریقہ
81170نماز کا بیاننماز کی سنتیں،آداب اورپڑھنے کا طریقہ

سوال

1. میرا پہلا سوال یہ ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث (822) میں سجدے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ عورتوں پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟

2. عورتوں کے طریقۂ نماز میں پاؤں کو ڈھانکنے کا نہیں بتایا جاتا، حالانکہ مَیں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ عورت کو پیر بھی ڈھانکنا چاہیے۔ صحیح طریقہ کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1-2) سوال میں آپ نے بخاری شریف کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:

عن أنس بن مالك، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «اعتدلوا في السجود، ولا يبسط أحدكم ذراعيه انبساط الكلب». [صحيح البخاري (1/164)].

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سجدہ کرنے میں اعتدال سے کام لو، اور تم میں سے کوئی بھی اپنے بازوؤں کو (زمین پر) کتے کے بچھانے کی طرح نہ بچھائے۔

"کتے کی طرح بازو پھیلانے" کا مطلب یہ ہے کہ ہتھیلیوں کے ساتھ کہنیوں کو بھی زمین پر رکھ دیا جائے۔ یہ ممانعت صرف مردوں کے لیے ہے، اس لیے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں "الرجل" کا لفظ ہے:

عن عائشة، قالت: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «... ينهى أن يفترش الرجل ذراعيه افتراش السبع». [صحيح مسلم (1/357)].

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ مردوں کو (سجدے میں) کتوں کی طرح پاؤں بچھانے سے منع فرمایا کرتے تھے۔

چنانچہ جن احادیث میں "مردوں" کی قید مذکور نہیں ہے وہاں شارحینِ حدیث نے اس قید کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ صراحت کی ہے کہ اس حکم کا اطلاق عورتوں پر نہیں ہوتا۔

نیز متعدد احادیثِ مبارکہ میں عورتوں کو حسبِ استطاعت سمٹ کر نماز کے ارکان کی  ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ اس میں پردہ باقی رہتا ہے، چنانچہ مختلف حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے بھی عورتوں کے نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اس پہلو کو مدِ نظر رکھا ہے کہ عورت کے لیے جتنا ممکن ہو وہ سمٹ کر نماز کے ارکان ادا کرے گی۔ اسی لیے فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں عورت کے سجدہ کرنے کا درجِ ذیل طریقہ ذکر کیا گیا ہے:

1. سجدے میں سَر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان اس طرح رکھا جائے کہ دونوں انگوٹھوں کے سِرے کانوں کی لو کے سامنے ہو جائیں۔

2. انگلیوں کا رُخ قبلے کی طرف ہو۔

3. سجدے میں عورت کے تمام اعضاء مِلے ہوئے ہوں، یعنی بازو پہلوؤں سے اور رانیں پیٹ سے ملی ہونی چاہیے۔

4. سجدے میں عورت کی کہنیوں سمیت پوری بانہیں زمین پہ بچھی ہوئی ہوں۔

5. سجدے میں عورت کے کولہے اوپر کی طرف نہ اُٹھے ہوں، بلکہ اس کا جسم حتی الامکان زمین سے ملا ہوا ہو۔

6. پورے سجدے کے دوران ناک زمین پر ٹِکی رہے، زمین سے نہ اُٹھے۔

7. سجدے میں عورت کے دونوں پاؤں داہنی طرف کو نکال کر دائیں پنڈلی پر رکھے ہوں۔

8. سجدے کی حالت میں کم از کم اتنی دیر گزاری جائے کہ تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰى اطمینان کے ساتھ کہا جا سکے۔ پیشانی ٹیکتے ہی فوراً اُٹھا لینا منع ہے۔

نیز عورتوں کا ستر ٹخنوں تک ہے، لہٰذا صحتِ نماز کے لیے ٹخنوں تک ڈھانک کر رکھنا ضروری ہے، لیکن پاؤں ڈھانکنا ضروری نہیں ہے۔

حوالہ جات
مصنف ابن أبي شيبة (241/1):
عن علي، قال: «إذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتضم فخذيها».
مصنف ابن أبي شيبة (241/1):
عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة، فقال: «تجتمع وتحتفر».
مصنف ابن أبي شيبة (242/1):
عن مغيرة، عن إبراهيم، قال: «إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها، ولتضع بطنها عليهما».
مصنف ابن أبي شيبة (242/1):
عن منصور، عن إبراهيم، قال: «إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها، ولا ترفع عجيزتها، ولا تجافي كما يجافي الرجل».
شرح عمدة الأحكام لعبد الله بن جبرين (10/13):
"ينهى [النبي] أن يفترش الرجل ذراعيه افتراش السبع، يعني: إذا سجد لا يبسط ذراعيه على الأرض كافتراش السبع، فالسبع أو الكلب يبسط يديه إذا أقعى فإنه يمد يديه أو يمد رجليه على الأرض فنهي عن التشبه به.
التيسير بشرح الجامع الصغير ـ للمناوى (336/1):
"(اعتدلوا في السجود) بوضع أكفكم فيه على الأرض ورفع مرافقكم عنها ورفع بطونكم عن أفخاذكم إذا كان المصلى ذكرا، (ولا يبسط أحدكم) بالجزم على النهي أي المصلى (ذراعية انبساط الكلب) أي لا يفرشهما على الأرض في الصلاة؛ فإنه مكروه، لما فيه من قلة الاعتناء بالصلاة."
فيض القدير (706/1):
"(ولا يبسط) بالجزم على النهي أي المصلي (ذراعيه) أي لا يبسطهما فينبسط (انبساط الكلب) يعني: لا يفرشهما على الأرض في الصلاة؛ فإنه مكروه لإشعاره بالتهاون وقلة الاعتناء بالصلاة، ... والواجب هنا ارتفاع الأسافل على الأعالي وتمكين الجبهة مكشوفة بالأرض والتحامل عليها مع الطمأنينة، فإذا حصل ذلك صحت صلاته وإن بسط ذراعيه ولم يجاف مرفقيه، لكنه مكروه لهذا النهي، والكلام من حيث التفريق في الذكر، أما الأنثى فيسن لها الضم لأنه أستر لها كما مر."
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (297/3):
"وينهى أن يفترش أي في السجود الرجل أي لا المرأة؛ لأن مبني أمرها على التستر. قال الطيبي: التقييد بالرجل يدل على أن المرأة تفترش ذراعيه، أي: نهى عن انضمامهما بالأرض في السجود افتراش السبع أي كافتراشه لما فيه من التهاون بأمر الصلاة، بل ينبغي أن يضع كفه ويرفع مرفقه عن الأرض، قاله ابن الملك. وقال ابن حجر: ومنه أخذ أئمتنا أنه يسن للرجل أن يرفع ذراعيه عن الأرض وأن يعتمد على راحتيه، وجاء الأمر بذلك في صحيح مسلم، وأنه يكره بسطهما، ويوافقه خبر الصحيحين: ولا يبسط أحدكم ذراعيه انبساط الكلب."
الدر المختار (498/1):
"(وسجد بأنفه) أي: على ما صلب منه (وجبهته)، حدها طولا من الصدغ إلى الصدغ وعرضا من أسفل الحاجبين إلى القحف، ووضع أكثرها واجب، وقيل: فرض كبعضها وإن قل. (وكره اقتصاره) في السجود (على أحدهما) ... (ويسبح فيه ثلاثا) كما مر (والمرأة تنخفض)، فلا تبدي عضديها، (وتلصق بطنها بفخذيها)؛ لأنه أستر. وحررنا في الخزائن أنها تخالف الرجل."
رد المحتار (55/4):
"(قوله: أي على ما صلب منه) وأما ما لان منه، فلا يجوز الاقتصار عليه بإجماعهم. بحر ... (قوله: كما مر) أي نظير ما مر في تسبيح الركوع من أقله ثلاث، وأنه لو تركه أو نقصه كره تنزيها، ...  (قوله: فلا تبدي عضديها) كتب في هامش الخزائن أن هذا رد على الحلبي، حيث جعل الثاني تفسيرا للانخفاض، مع أن الأصل في العطف المغايرة. تنبه ا هـ."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

15/صفر المظفر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے