021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کاروبار دوسرے کے حوالے کرنا
81237مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

میں نے اپنا چلتا ہوا  کاسمیٹکس کا کا روبار اپنے سالے کو دیا ہے ۔ اس کام سےمیں ماہانہ چالیس سے بیالیس ہزار کما رہا تھا۔ کسی وجہ سے مجھے فیملی کے ساتھ دوسرے شہر منتقل ہونا پڑا ، تو میں نے اس کام کو ختم کرنا چاہا۔میرے سالے نے کہا کہ یہ کام ختم نہیں کیا جائے بلکہ اس کو دے دیا جائے۔اس کے  کہنے پر میں نے سارا کاروبار اسکے ہاتھ میں سونپ دیا۔ اس نے وعدہ کیا شرعی حساب سے ہر ماہ جو رقم  (چالیس، بیالیس ہزار)مجھے بچتی تھی، وہ مجھے ادا کیا کرےگا۔آپ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ شرعی حساب سے وہ ہمیں  یہ رقم کس صورت میں  ادا کرے،جبکہ ابھی اتنا نفع نہیں ہو پا رہا۔ لیکن وعدہ کرنے کی صورت میں اور ہمیں ہمارا گھر چلانے کے لیے وہ یہ رقم کس صورت میں اداکرے کہ  ہم گناہ گار بھی نا ہوں اور ہمیں ہماری ضرورت کی رقم ملتی  رہے۔

وضاحت: سائل کا سالہ بے روزگار تھا، سائل نے اس سے معلومات لی اور سالے کے مشورے سے ہی کاسمیٹکس کا کام شروع کیا۔ شفٹنگ کی وجہ سے سائل نے  کام بند کرنے کا ارادہ کیا تو سالے نے کہا کہ کاروبار مجھے  دے دیں، پیسے آپ کے ہی لگے ہوئے ہیں، میں آپ کو ماہانہ پیسے دیتا رہونگا، کیونکہ منافع آپ کےپیسوں سے ہی ہوگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

            ایک شخص کی طرف سے سرمایہ اوردوسرے کی طرف سے صرف عمل ہو تو اس عقد کو شریعت میں مضاربت کہتے ہیں،عقدِ مضاربت  کی صحت کی دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ یہ  شرط بھی ہے کہ نفع کی تقسیم متعین رقم کی صورت میں نہ ہو۔مذکورہ  صورت میں نفع کی رقم متعین کرنے کی وجہ سے یہ عقد فاسد ہوگیا۔           

            مضاربہ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ اصل سرمایہ اورحاصل ہونے والا کل نفع(اگرہوا ہو) رب المال(مالک )  کودیاجائے گا،البتہ اس کے خرچے نکالے جائیں گے اورمضارب (محنت کرنے والے) کو اجرتِ مثل (اس جیسے کام پر جتنی اجرت دینے کا رواج ہے) ملے گی۔نیز اگرآپ  اس معاملے کو جاری رکھنا چاہیں تو گذشتہ معاہدہ میں طے پانے والی شرطِ فاسد (ماہانہ چالیس ہزاردینا)ختم کرکے ازسرنو معاہدہ کریں اور حاصل شدہ نفع کی تقسیم فیصد کے تناسب سے مقرر کریں۔

            تقسیمِ نفع میں فیصد کا تناسب باہمی رضامندی سے جو رکھنا چاہیں، رکھ سکتے ہیں۔

حوالہ جات
البحر الرائق  (7/ 264)::
"الرابع أن يكون الربح بينهما شائعا كالنصف والثلث لا سهما معينا يقطع الشركة كمائة درهم أو مع النصف عشرة الخامس أن يكون نصيب كل منهما معلوما فكل شرط يؤدي إلى جهالة الربح فهي فاسدة وما لا فلا مثل أن يشترط أن تكون الوضيعة على المضارب أو عليها فهي صحيحة وهو باطل ۔۔۔وحكمها أنه أمين بعد دفع المال إليه ووكيل عند العمل وشريك عند الربح وأجير عند الفساد فله أجر مثله والربح كله لرب المال."
الهداية (3/ 200):
"قال: "المضاربة عقد على الشركة بمال من أحد الجانبين" ومراده الشركة في الربح وهو يستحق بالمال من أحد الجانبين "والعمل من الجانب الآخر" ولا مضاربة بدونها؛ ألا ترى أن الربح لو شرط كله لرب المال كان بضاعة، ولو شرط جميعه للمضارب كان قرضا….قال: "ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة" من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما ولا بد منها كما في عقد الشركة."

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

17/صفر الخیر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے