021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
متولی کےانتقال کے بعد ولایت کا اختیار
81190وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ:

 بندہ محمد اسحاق نے اپنی ذاتی زر خرید زمین میں مدرسہ تعمیر کیا، مدرسہ کی تعمیرات مکمل ہونے کےبعد   چند سال تک بندہ محمد اسحاق نے اس مدرسہ کو چلایا اور اس میں اساتذہ وغیرہ رکھے اور ان کو باقاعدہ تنخواہیں دیتا رہا،اور طلبا بھی باقاعدہ پڑھتے رہے۔   بندہ محمد اسحاق نے اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے مدرسہ کے تمام انتظامات وغیرہ مع تعمیرات اور پڑھانے کی ذمہ داری حافظ عبدالغفورولد زہری صاحب کو دے دی  کہ وہ اس مدرسہ کو چلائیں آباد کریں،البتہ اس مدرسہ کو فروخت اور اس میں گھر وغیرہ بنانے کی آپ کو اجازت نہیں ہوگی۔

میں نے حافظ صاحب کو اس وقت مدرسہ حوالے کیا جب میری اولاد چھوٹی تھی ، اب حافظ عبد الغفور ولد زہری صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔اب میں وہ مدرسہ حافظ عبد الغفور (مرحوم) کے ورثاء سےلینا چاہتا ہوں،جبکہ  میری اولاد میں الحمد لله صلاحیت موجود ہے وہ سب حافظ قرآن ہیں اور صلاحیت رکھتے ہیں۔شرعی اعتبار کیا میں حافظ عبد الغفور (مرحوم) کے ورثاءسے مدرسہ واپس لے سکتا ہوں یا نہیں ؟نیز یہ بھی واضح کریں کہ اگر حافظ عبدالغفور کے ورثاء میں بھی صلاحیت موجود ہو تب بھی مدرسہ لیا جاسکتا ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ   متولی کے انتقال کے بعد اس کی ولایت ختم ہوجاتی ہے،واقف کو اختیار ہوتا ہےکہ وہ جس کو چاہے متولی بنائے۔

صورت مسئولہ میں حافظ عبدالغفور  کے انتقال کے بعد واقف (محمد اسحاق) کو اختیار ہے کہ وہ جس کو چاہے متولی بنائےاوراگر واقف کی اولاد  باصلاحیت ہےتو وہ ولایت کی زیادہ حق دار ہے، اگر چہ متولی کی اولاد بھی باصلاحت ہو،تاہم اس موقع پر حکمت وبصیرت کے ساتھ ایسا فیصلہ کیا جائےجس میں وقف کےمصالح کی زیادہ رعایت ہو۔

حوالہ جات
رد المحتار (17/ 447)
مطلب لا يجعل الناظر من غير أهل الوقف ( قوله وما دام أحد إلخ ) المسألة في كافي الحاكم ونصها : ولا يجعل القيم فيه من الأجانب ما وجد في ولد الواقف وأهل بيته من يصلح لذلك ، فإن لم يجد فيهم من يصلح لذلك ، فجعله إلى أجنبي ثم صار فيهم من يصلح له صرفه إليه ا هـ ومفاده : تقديم أولاد الواقف وإن لم يكن الوقف عليهم بأن كان على مسجد أو غيره ، ويدل له التعليل الآتي وفي الهندية عن التهذيب : والأفضل أن ينصب من أولاد الموقوف عليه ، وأقاربه ما دام يوجد أحد منهم يصلح لذلك ا هـ والظاهر : أن مراده بالموقوف عليه من كان من أولاد الواقف ، فلا ينافي ما قبله ، ثم تعبيره بالأفضل يفيد أنه لو نصب أجنبيا مع وجود من يصلح من أولاد الواقف يصح فافهم : ولا ينافي ذلك ما في جامع الفصولين من أنه لو شرط الواقف كون المتولي من أولاده وأولادهم ليس للقاضي أن يولي غيرهم بلا خيانة ، ولو فعل لا يصير متوليا .
جامع الفصولين (1/ 109)
إذا مات المتولي والواقف حيّ فنصب القيم إلى الواقف لا إلى القاضي فلو كان الواقف ميتاً فوصيه أولى من القاضي فلو لم يوص إلى أحد فالرأي إلى القاضي وكذا "فصط" وقال وذكر "م" رحمه الله في السير أنه إلى القاضي "ذ" الواقف إذا شرط الولاية لرجل كانت الولاية للواقف أيضاً وله عزل من شرط ولايته ونصب غيره.
البحر الرائق (5/ 251)
وفي الفتاوى الصغرى إذا مات المتولي والواقف حي فالرأي في نصب قيم آخر إلى الواقف لا القاضي فإن كان الواقف ميتا فوصيه أولى من القاضي فإن لم يكن أوصى إلى أحد فالرأي في ذلك إلى القاضي
لسان الحكام (ص: 299)
وفي البزازي إذا مات المتولي والواقف حي فالرأي في النصب إلى الواقف لا إلى الحاكم وبعد موت الواقف إلى وصيه لا إلى الحاكم وإن لم يكن له وصي فالرأي إلى لحاكم لأن العين وإن زالت بالوقف عن ملكه حقيقة فهي باقية على ملكه حكما لقوله عليه الصلاة والسلام وصدقة جارية إلى يوم القيامة ، وفي الأصل الحاكم لا يجعل القيم من الاجانب ما دام في أهل بيت الواقف من يصلح لذلك فإذا لم يجد فيهم من يصلح ونصب من غيرهم ثم وجد فيهم من يصلح صرفه عنه إلى من يصلح من أهل بيت الواقف.

عدنان اختر

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

  16/صفر الخیر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے