021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہاتھ یا کپڑا باربار گیلا کر کے جسم پر پھیرنے سے غسل کا حکم
81206پاکی کے مسائلغسل واجب کرنے والی چیزوں، فرائض اور ،سنتوں کا بیان

سوال

 السلام  علیکم اگر فرض غسل میں فرض میں کلی کرنا ور ناک میں پانی ڈالنا کر کے سر کو پانی سے دھو کر تمام بدن کو ہاتھ کو یا کپڑے کو بار بار گیلا کر کے پر پھیرنے سی کے کوئی جگا خشک نہ رہے کیا غسل ہوجاتا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 غسل  میں تمام بدن کو ایک مرتبہ اس طرح دھونا یا گیلا کرنافرض ہے کہ  جسم پر پانی بہہ جائے یا کم از کم کچھ قطرےبہہ کر جسم سےگر جائیں۔ صورت مسئولہ میں اگر ہاتھ یا کپڑا پھیرنے سےجسم صرف گیلا ہوتا ہے،اس پر پانی بہتا  نہیں  ہے اور نہ ہی پانی کےقطرے نیچے ٹپکتے ہیں ،تو غسل ادا نہیں ہوگا۔ جسم کو اگر اتنا گیلاکرلیا کہ پانی اپنی جگہ سے بہہ جائے اور کچھ قطرے نیچے  گر گئے، تو فرض غسل ادا ہو جائے گا۔

حوالہ جات
قال العلامة ابن عابدين رحمه اللہ تعالی: أقول: فيه أن الغسل في الاصطلاح غسل البدن، واسم البدن يقع على الظاهر والباطن إلا ما يتعذر إيصال الماء إليه أو يتعسر، كما في البحر.  فصار كل من المضمضة والاستنشاق جزءا من مفهومه؛ فلا توجد حقيقة الغسل الشرعية بدونهما. ويدل عليه أنه في البدائع ذكر ركن الغسل، وهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج.    (رد المحتار:1/284)
قوله:(أي إسالة الماء الخ) قال في البحر: واختلف في معناه الشرعي: فقال أبو حنيفة ومحمد: هو الإسالة مع التقاطر ولو قطرة؛ حتى لو لم يسل الماء بأن استعمله استعمال الدهن لم يجز في ظاهر الرواية، وكذا لو توضأ بالثلج ولم يقطر منه شيء لم يجز. وعن أبي يوسف: هو مجرد بل المحل بالماء سال أو لم يسل. (ردالمحتار:1/208)
قال العلامة الكاساني رحمہ اللہ تعالی: فالغسل في اللغة اسم للماء الذي يغتسل به، لكن في عرف الفقهاء يراد به غسل البدن، وقد مر تفسير الغسل فيما تقدم أنه الإسالة؛ حتى لا يجوز بدونها. وأما ركنه فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرة واحدة؛ حتى لو بقيت لمعة لم يصبها الماء، لم يجز الغسل، وإن كانت يسيرة.         (بدائع الصنائع:1/267)

عبد الہادی

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

 19صفر 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالهادى بن فتح جان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے