021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سرکاری ملازمت اضافی کام پر کمیشن لینے کا حکم
81226اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

میں ایک سرکاری محکمے میں سب ارڈینیٹ کے طور پر سٹاف ڈیوٹی سرانجام دیتا ہوں۔ میری ڈیوٹی مشینری کو آپریٹ کروانا ہے، اور کنٹریکٹرز کے ذمے جو مرمت کا کام ہوتا ہے اس کی دیکھ بھال کرنا بھی میری ذمہ داری میں شامل ہے۔ لیکن اعلی افسران کی طرف سے کنٹریکٹرز کی ذمہ داری اور اس کا کام بھی مجھے سونپا جاتا ہے جس میں سرکاری مشینری کی بازار سے مرمت، ورک شاپ میں لے کر جانا، مشینری کو کھلوانا، ٹرانسپورٹ کے معاملات، ورکشاپ کے کاریگروں کو ڈیل کرنا، پرزوں کی خریداری، پیسوں کا لین دین اور مزدوری کے معاملات وغیرہ شامل ہیں۔

مذکورہ سارے کام مجھے کرنے پڑتے ہیں، میں انکار نہیں کر سکتا ہوں کہ یہ کام تو کنٹریکٹرز کے ہیں، میرے نہیں ہیں کیونکہ اعلی افسران کا آرڈر ماننا ہر صورت لازمی ہوتا ہے۔ اور اکثر و بیشتر ڈیوٹی ٹائم کے علاوہ اضافی ٹائم دینا پڑتا ہے جب تک کام مکمل نہیں ہوتا واپس نہیں ا ٓسکتا۔ آفیشل ڈیوٹی کے علاوہ جو اضافی کام میرے ذمے کر دیا جاتا ہے سرکاری طور پر اس کی کوئی اجرت مقرر نہیں ہے، البتہ جتنے پیسوں کا کام کروایا جاتا ہے اس کا فیصدی تناسب اعلی افسران کی طرف سے مقرر ہوتا ہے جو بطور کمیشن مجھے دیا جاتا ہے۔

 اب پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح مذکورہ کمیشن میرے لیے لینا شرعا حلال ہے یا حرام؟

۲ -دوسری بات یہ ہے کہ بعض اوقات کسی کنٹریکٹ کے متعلق جو رقم سرکار کی طرف سے ملتی ہے وہ بچ جاتی ہے اب یہ بچی ہوئی رقم بھی افسران کے درمیان تقسیم ہوتی ہے اور اس میں سے کچھ رقم اجرت یا کمیشن کے طور پر مجھے بھی مل جاتی ہے، تو کیا مذکورہ رقم میرے لیے حلال ہے یا حرام، جبکہ میں نے اپنے ڈیوٹی ٹائم کے علاوہ ٹائم دیا ہوتا ہے اور اس میں اپنے کام کے علاوہ دوسرے کام سرانجام دیے ہوتے ہیں۔

۳ - تیسری بات یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی نئی مشینری لگانے کے لیے ایک کنٹریکٹ ہوتا ہے جو کئی ماہ تک چلتا ہے، اس کانٹریکٹ کے دوران اعلی افسران کی طرف سے کاموں کی دیکھ بھال، ڈاکومنٹیشن اور دیگر انتظامی امور ذمے لگائے جاتے ہیں جن کو کرنا بہرحال ضروری ہوتا ہے اور اِن امور کی انجام دہی کے لیے اضافی ٹائم بھی دینا پڑتا ہے، چھٹی کے اوقات بھی لگ جاتے ہیں، پٹرول انرجی سب کا بھرپور استعمال ہوتا ہے۔ کنٹریکٹ ختم ہونے پر میرے سکیل کے مطابق مجھے کمیشن دیا جاتا ہے جو ان افسران کی طرف سے مقرر ہوتا ہے۔

 تو کیا اس صورت میں بھی میرے لیے مذکورہ کمیشن لینا شرعا حلال ہے یا حرام ہے؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں مذکورہ تینوں صورتوں کا حکم واضح کر دیجئے اس بارے میں نہایت فکر مند ہوں اور یہ بھی فرما دیجئے کہ اگر مذکورہ تینوں صورتیں ناجائز ہیں تو پھر ان کا شرعی متبادل کیا ہے؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ اگر کوئی کنٹریکٹ مثلا 10لاکھ کا ہے اور وہ کنٹریکٹر کو کم میں مل جاتا ہے تو اعلی افسران اوپر کی رقم اس سے واپس لے لیتے ہیں پھر وہ سب میں تقسیم ہوتی ہے۔ اسی طرح کریگروں سے کام کرواتے ہوئے جو یہ کام کرواتا ہے وہ درمیان میں کچھ پیسے رکھ لیتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ تینوں صورتوں میں حقیقی اخراجات جو پیٹرول وغیرہ کی مد میں آپ کے ہوئے ہیں وہ وصول کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اعلی افسران کی طرف سے دی جانے والی رقم جائز نہیں ہے، یہ گناہ کے کام میں تعاون ہے جو کہ جائز نہیں۔ خاص طور پر جو صورت دوسرے نمبر پر ذکر کی گئی ہے جس میں کنٹریکٹر سے اضافی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے پھر وہ رقم سب میں تقسیم کی جاتی ہے۔

اضافی وقت یا چھٹی والے دن کام کرنے کی تنخواہ قرار دے کر بھی اعلی افسران سے مذکورہ رقم لینا درست نہیں۔ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ اضافی وقت یا اضافی دن کی الگ سے باقاعدہ تنخواہ منظور کروا لی جائے۔

حوالہ جات
{ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} [المائدة: 2]
تفسير القرطبي (6/ 36)
الثالثة عشرة - قوله تعالى : { وتعاونوا على البر والتقوى } قال الأخفش : هو مقطوع من أول الكلام وهو أمر لجميع الخلق بالتعاون على البر والتقوى أي ليعن بعضكم بعضا وتحاثوا على ما أمر الله تعالى واعلموا به وانتهوا عما نهى الله عنه وامتنعوا منه وهذا موافق لما [ روي عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال : الدال على الخير كفاعله ] وقد قيل : الدال على الشر كصانعه.

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۱۶/صفر الخیر/۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے