021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شریک کی اجازت کے بغیر رقم ادا کرنے پراس پر نفع کا مطالبہ کرنا
81319شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

میں نے ایک پروجیکٹ میں پارٹنر شپ کی ہے، جس میں  ایک پارٹنرزمین کے مالک کے علاوہ چار پارٹنر اور ہیں، جن کو دو کروڑ کے ذریعہ زمین کے مالک کے ساتھ شریک ہونا تھا، تقریباً ایک سال  دو ماہ قبل ایک پارٹنر نے دوسروں کی طرف سے بطورِ قرض زیادہ پیسے ادا کر دیے، یعنی میں نے جو پچاس لاکھ روپے ادا کرنے تھے وہ انہوں نے ادا کر دیے، جس میں سے میں نے تین ماہ کے اندر پینتالیس لاکھ(4500000) روپے ادا کردیے، جبکہ اس ایک سال اور دو ماہ میں بندہ اور ایک دوسرا پارٹنر ضیاء بھائی مسلسل آفس میں آتے رہے اور سر کے ساتھ مل کر کام کو آگے بڑھاتے رہے، جب زمین پر باؤنڈری وال لگ گئی تو ساجد بھائی نے کہا کہ اب ہم چار پارنٹنروں کے درمیان معاہدہ ہو گا اور میں آپ دونوں سے بطورِ نفع بیس بیس لاکھ روپے اضافی لوں گا، ہم نے کہا کہ پورا سال تو آپ کام پر آئے نہیں، جبکہ ہم نے پیسہ بھی دیا اور محنت کر کے کام کو بھی آگے بڑھایا، کیا اس کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ صرف پیسے کا اعتبار ہے، میں نے کہا میں سب واپس کر چکا ہوں، صرف پانچ لاکھ روپیہ باقی ہے، اس نے کہا میں نہیں جانتا، میں تو لوں گا، میں نے کہا یہ اضافی رقم سود ہے، اس نے کہا میں نے مسئلہ معلوم کیا ہے، لہذا میں اضافی رقم لوں گا۔ اب پوچھنایہ ہے کہ:

  1. كيا ہماری محنت كا کوئی بدل نہیں ہے؟
  2. کیا ساجد بھائی کا اضافی رقم مانگنا جائز ہے؟ جبکہ انہوں نے وقتی قرضہ دیا اور کہا کہ تم لوگ کام کرو۔
  3. اس معاہدہ کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟اگر یہ معاہدہ غیر شرعی ہے تو کیا میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہوں۔

وضاحت:سائل نے فون پر بتایا کہ معاہدہ یہ طے ہوا تھا کہ چاروں شرکاء برابر کا سرمایہ اور برابر کا کام کریں گے اور حاصل شدہ نفع سب شرکاء کے درمیان برابر تقسیم ہو گا، البتہ زمين والے كي نفع كی شرح زياده تھی۔ باقی ساجد بھائی نے میری طرف سے پیسے دیتے وقت مجھ سے پوچھا کہ تم مجھے پیسے تو واپس کردو گے نا؟ میں نے کہا ہاں۔ اس پر انہوں نے یہ کہا تھا کہ تم کام شروع کرو، میں پیسے دے دیتا ہوں۔ پھر میں نے تین ماہ میں مکمل ادا کر دیے، البتہ پانچ لاکھ اخرجات کی مد میں اپنے پاس باقی رکھا، کیونکہ کاروبار کے ملازمین کی تنخواہیں اور بجلی بل وغیرہ کی ادائیگی کا حساب باقی ہے۔چونکہ ہمارے درمیان اختلاف ہو گیا تھا اور یہ اضافی رقم مانگ رہے تھے، اس لیے ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ اخرجات کی رقم روک نہ لیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال کے مطابق شرکت کے مذکورہ معاہدہ کی رُو سے تمام شرکاء کے ذمہ کام اور سرمایہ کا تناسب برابر تھا، اسی طرح نفع کی شرح بھی سب درمیان برابر طے کی گئی تھی، اس لیے اصولی طور پر تمام شرکاء کو برابر کا کام کرنا چاہیے تھا، لیکن اگر معاہدہ ہوجانے کے بعد بعض شرکاء کام نہ کریں تو کام کرنے والے شرکاء کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ دیگر شرکاء سے بات کرکےکام کرنے کی وجہ سے اپنے نفع کی شرح بڑھانے کا مطالبہ کرتے یا اپنے کام کے عوض ماہانہ لم سم اجرت لینا طے کروا لیتے۔ لیکن جب ان میں سے کسی بھی صورت پر عمل نہیں کیا گیا اور کام نہ کرنے والے شریک نے کام کرنے سے انکار بھی نہیں کیا تو اصل معاہدہ کے مطابق کام کرنے والے شرکاء کو ان کے کام کے عوض اضافی نفع یا اجرت نہیں ملے گی، بلکہ حاصل شدہ نفع سب شرکاء کے درمیان برابر تقسیم ہو گا اوریہ حضرات بھی طے شدہ نفع کے ہی حق دار ہوں گے۔

سوال میں ذکر کی گئی وضاحت کے مطابق ساجد صاحب نے پیسے دیتے وقت آپ سےواپس لینے کا پوچھا تھا، جس پر آپ نے رقم واپس کرنے کا وعدہ کیا اور پھر تین ماہ کی مختصر مدت کے دوران اس کی نوے فیصد رقم واپس ادا کر دی اور ساجد صاحب نے وہ رقم وصول کر لی تو اس تمام صورتِ حال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رقم کی حیثیت قرض کی تھی، کیونکہ قرض قابلِ واپسی ہوتا ہے اور اس رقم کی واپسی کی بات رقم دیتے وقت طے کر لی گئی تھی اور قرض پر کسی بھی قسم کا نفع حاصل کرنا سود شمار ہوتا ہے، لہذا ساجد صاحب کا اضافی رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، بلکہ یہ اضافی رقم سراسر سود اور حرام شمار ہو گی۔

3۔ سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق شرعی اعتبار سے یہ معاہدہ شرکت بالعروض کا ہے، کیونکہ اس میں ایک شریک کی طرف سے زمین اور باقی چار شرکاء کی طرف سے کرنسی کی صورت میں سرمایہ لگانا تھا(بشرطیکہ کروڑ روپے زمین کے عوض مالک کو نہ دیے ہوں، بلکہ اس رقم سے زمین پر عمارت وغیرہ بنا کر اس کو بیچنا طے ہو)  اور ایسی شرکت حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں، البتہ حنابلہ کے نزدیک چونکہ یہ شرکت جائز ہے اور آج کل اس کا رواج بھی عام ہو چکا ہے، اس لیے ضرورت کے پیشِ نظر اس کی اجازت دی جاتی ہے، چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ نے امداد الفتاوی میں اس کے جواز کا فتوی دیا ہے،  لہذا حنابلہ کے مذہب پر عمل کرتے ہوئے شرکت کا یہ معاملہ درست ہوا ہے اس لیے  آپ کو علیحدگی اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 311) دار الفكر-بيروت:
(وإما عنان) بالكسر وتفتح (إن تضمنت وكالة فقط) بيان لشرطها (فتصح من أهل التوكيل) كصبي ومعتوه يعقل البيع (وإن لم يكن أهلا للكفالة) لكونها لا تقتضي الكفالة بل الوكالةوخاصا ومطلقا ومؤقتا و (مع التفاضل في المال دون الربح وعكسه.
قال ابن عابدين:(قوله: ومع التفاضل في المال دون الربح) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح، وقوله وعكسه: أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال.
قلت: والظاهر أن هذا محمول على ما إذا كان العمل مشروطا على أحدهما.
وفي النهر: اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط؛ وإن شرطاه على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية اه.
قلت: وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط، وهذا إذا كان العمل مشروطا كما يفيده قوله إذا شرطا العمل عليهما إلخ
مجلة الأحكام العدلية (ص: 258) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
المادة (1345) يتقوم العمل بالتقويم , أي أن العمل يتقوم بتعيين القيمة , ويجوز أن يكون عمل شخص أكثر قيمة بالنسبة إلى عمل شخص آخر. مثلا إذا كان رأس مال الشريكين في شركة عنان متساويا وكان مشروطا عمل كليهما فإذا شرط لأحدهما حصة زائدة في الربح جاز , لأنه يجوز أن يكون أحدهما أكثر مهارة من الآخر في البيع والشراء وعمله أزيد وأنفع.
المادة (1346) ضمان العمل نوع من العمل , فلذلك إذا تشارك اثنان شركة صنائع بأن وضع أحد في دكانة آخر من أرباب الصنائع على أن ما يتقبله ويتعهده هو من الأعمال يعمله ذلك الآخر وأن ما يحصل من الكسب أي الأجرة يقسم بينهما مناصفة جاز , وإنما استحقاق صاحب الدكان الحصة هو بضمانه العمل وتعهده إياه كما أنه ينال في ضمن ذلك أيضا منفعة دكانه.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 257) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
المادة (1342) لا يصح عقد الشركة على الأموال التي ليست معدودة من النقود كالعروض والعقار , أي لا يجوز أن تكون هذه رأس مال للشركة , ولكن إذا أراد اثنان اتخاذ أموالهما التي لم تكن من قبيل النقود رأس مال للشركة فبعد أن يحصل اشتراكهما ببيع كل واحد منهما نصف ماله للآخر فلهما عقد الشركة على مالهما المشترك هذا , وكذلك لو خلط اثنان مالهما الذي هو من المثليات ومن نوع واحد كمقدارين من الحنطة مثلا ببعضه فحصلت شركة الملك فلهما أن يتخذا هذا المال المخلوط رأس مال للشركة ويعقدا عليه الشركة.
المغني لابن قدامة (5/ 14) مكتبة القاهرة:
فصل: ولا تصح الشركة بالفلوس. وبهذا قال أبو حنيفة، والشافعي، وابن القاسم صاحب مالك. ويتخرج الجواز إذا كانت نافقة؛ فإن أحمد قال: لا أرى السلم في الفلوس؛ لأنه يشبه الصرف. وهذا قول محمد بن الحسن، وأبي ثور؛ لأنها ثمن، فجازت الشركة بها، كالدراهم والدنانير.    
ويحتمل جواز الشركة بها على كل حال، نافقة كانت أو غير نافقة، بناء على جواز الشركة بالعروض. ووجه الأول، أنها تنفق مرة وتكسد أخرى، فأشبهت العروض، فإذا قلنا بصحة الشركة بها، فإنها إن كانت نافقة كان رأس المال مثلها، وإن كانت كاسدة، كانت قيمتها كالعروض.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

25/صفرالمظفر 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے