021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک وارث کی اولاد کا پوراحق وصول کرنےکے بعد پھر دعوی کرنا
81317دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میرا نام محمد اکرم ہے والد صاحب کانام محمد بشیر ہے میرا مسئلہ یہ ہے کہ صدر ایوب کے دور میں ایک شخص اپنے نام زیادہ زمین نہیں کراسکتا تھا تو میرے والد صاحب نے بارہ ایکٹر میرے بڑے بھائی محمداقبال کے نام سے لیے اور خود کے نام سے اکتیس ایکٹر پینتیس گھنٹازمین لی { یاد رہے ایک ایکٹر میں چالیس گُھنٹے ہوتے ہیں} اور میری والدہ کے نام سے بارہ ایکٹر لی اور آٹھ ایکٹر میرے نام سے لی، اسطرح میرے والد صاحب کے پاس 64 ایکٹر زمین ہو گئی پھر1988 میں والد صاحب نے بٹوارہ کیا اور بڑے بھائی محمد اقبال کو جو ان کے نام پر بارہ ایکٹر تھی دی اور کہا کہ اپناحصہ لو اور     ہم سے الگ ہوکر  اپنی زمین خود آباد کرو، وہ اپناحصہ خوشی خوشی لیکر الگ ہوگیا، اپنا کھانا پینا اور رہائش الگ کرلی اور بقیہ زمین میرے والد صاحب نے   میرے نام آٹھ ایکٹر کردی اور چار ایکڑ اور دی ،یوں میرے پاس بھی بارہ ایکڑ زمین ہوگی ،  پھرچھوٹے بھائی محمد اسلم اور محمد یاسین  میں سے ہر ایک کو الگ الگ بارہ بارہ  ایکڑ زمین دی اور یہ زمین ان کے نام نہ ہوسکی، اس لیےکہ ہماری زمین پر لون تھا یہ سب ہمارے والد صاحب نے زبانی کہا اور سب سے چھوٹے بھائی محمد افضل  کو جو والدہ کے نام بارہ ایکڑ تھے وہ دے دیے، باقی چار ایکڑ گاؤں کے لیے رکھ لیے، ہاری وغیرہ کی رہائش کےلیے  [یاد رہے یہ چار ایکڑ جو گاؤں کے لیےرکھے تھے بڑے بھائی کے نام تھے لیکن والدصاحب نے ان سے تبادلہ کرلیا تھا، ان کو زرخیز زمین  اپنے پاس سے دی  تھی اور چارایکڑ گاؤں   کے لیے رکھ لیے ] اس طرح64 ایکڑ تقسيم  کی، پھر تین سال کے عرصہ کے بعد مزید8 ایکڑ  خریدی سب سے چھوٹے بھائی افضل  کے نام  سےاور جو بارہ ایکڑ  افضل کے پاس تھے والدہ کے وہ والدہ کوواپس دے دیے ،اب   افضل کے پاس آٹھ ایکڑ رہ گئے تھے اور ہر بھائی کے پاس بارہ بارہ ایکڑ، والدہ نے کہا کہ افضل کو میں چار ایکڑ اپنے پاس سےدیدوں گی اور باقی اٹھ ایکڑ تین بیٹیوں  کو دے دوں گی ،ان کو حصہ نہیں ملا تھا ،یہ والدہ نے صرف زبانی کہا تھا، وصیت نہیں کی تھی، پھرکچھ عرصے کے بعد محمد افضل کا انتقال ہوگیا تھا والدہ اور والد کی زندگی میں اوروہ غیر شادی شدہ تھےاور اسکے تین سال بعد1995میں والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا،  اسکے تین مہینے کے بعد  چچا اور تایازاد بھائیوں نے  ہم سب بھائیوں کے درمیان جو والد صاحب کاترکہ رہ گیا تھا وہ تقسیم کرادیا وہ اس طرح کہ جس گھر میں ہم رہ رہے تھے اور جو  پلاٹ تھےوالد کے  ان کی  قیمت لگواکر میرے بڑے بھائی   کو اس کے حصے کی قیمت دی اور بھینس وغیرہ جو ان کے حصے میں آئی وہ دے دی اور بھائی افضل  کی آٹھ ایکڑ ہم نے چار بھائیوں نے دو دو ایکڑ آپس میں تقسیم کرلی  یہ دستاویز ہمارے پاس موجود ہے جس پر ہر ایک بھائی نے خوشی سے سائن  کیے،اس کے بعد ہم تین بھائی اکرم ،اسلم، یاسین اور والدہ ساتھ رہے اور بڑا بھائی محمد اقبال تو شروع ہی سے الگ تھا  یہ فیصلہ1995 میں ہوا،  زمین میرے پاس تھی پھر کچھ مہینوں کےبعد آٹھ ایکڑ تینوں بھائیوں کی مشترکہ زمین کی کمائی  سے خریدے1995 کے فیصلے کے بعد میرا بڑا بھائی محمد اقبال چوبیس سال زندہ رہا کبھی بھی کس چیز کا مطالبہ نہیں کیا، اس کو  ہر چیز میں اپناحصہ مل چکا تھا،پھر ان کا انتقال 2019 میں ہوا، والدہ کی زندگی میں اور پھر دوسال بعد والدہ کا انتقال ہوا،تو   بڑے بھائی محمد اقبال کے بچے کہہ رہےہیں کہ اب     بھی  ہمارے  والد کا  یعنی محمد اقبال کا       اپنے والد اور والدہ  کے ترکہ میں حصہ بنتا ہے   کیونکہ  اس کو بارہ  ایکڑ زمین  دادا نے گفٹ کی تھی ،براے مہربانی بتائيں  کہ  محمد اقبال کا حصہ اب بھی  والد صاحب کے ترکہ  میں بنتا ہے  کہ نہیں؟

نوٹ :

1988 کے بعد سے بھائی اقبال نےاپنی زمین الگ کر دی تھی ور ہمارےوالد صاحب الگ تھے،   والد صاحب  کے انتقال  کے بعد ہم تینوں بھائی اکرم ،اسلم اور یاسین   نے زمین سنبھالی،  باقی بہنوں کے حصہ کاذکر نہیں ،ہم  اپنی بہنوں  کوزمین   دیں گے تاکہ انکو بھی حصہ مل جائے۔

بھائی محمد اکرم نے فون پر درج ذیل باتوں کی وضاحت کی ہے:

١۔ والدنے محمد اقبال کو زمین الگ کرکے دی تھی باقی تین بھائیوں کوزبانی دیدی تھی اورجگہ بھی بتادی تھی مگر الگ نہیں کی تھی البتہ والدنےاپنی زندگی کے آخری دوسالوں میں قبضہ محمد اکر م کودیدیاتھااوران کو کہاتھاکہ یہ  آپ تین بھائیوں میں بارہ بارہ ایکڑتقسیم کردو،محمداکرم جس کو زمین حوالہ کی گئی ہے ان تین بھائیوں میں سے ایک ہے اوردوبھائی اس وقت جب والد نے زمین دی تھی نابالغ تھے ۔

۲۔محمد اکرم نے بتایاکہ والد صاحب پر قرض تھا جس کو میں نے 1996میں اداکیا 114800رورپے  اوردوسراقرض میں نے 2004میں اد کیا 200230روپےاوراسی طرح ٹیوب ویل کا بل والد پر بقایا تھا18306روپے جو میں نے ادا کیا،یہ سب میں نے تین بھائیوں کے حصہ سے اس نیت سے ادا کیا کہ بعد میں حساب کے وقت اس کا حساب کرلیاجائے گا۔

۳۔محمد افضل غیر شادی شدہ تھے ؟اوروالدین کی زندگی میں ہی اس کا انتقال ہوگیاتھاتقریباً16سال کے عمرمیں ۔

۴۔محمد اقبال کا انتقال والدہ کی زندگی میں ہوگیاتھا؟والدہ کا انتقال 2021میں جبکہ محمد اقبال کا 2019میں ہوا تھا۔

۵۔ایک غیر آبادزمین مرحوم بشیر  کی ماتلی میں ہےجو ان کے نام  پرہے اورابھی تقسیم نہیں ہوئی ۔

٦۔مرحوم محمد بشیر کی تین بیٹیاں بھی ہیں ،ان کو والد کے میراث میں سےبھی نہیں دیا گیااوروالدہ کے میراث سے بھی ان کونہیں ملا، ہاں والدہ نے ان کو  اپنے پاس سےزندگی میں دینے کاکہاتھا،مگردیا نہیں تھا اوروصیت بھی نہیں کی تھی۔

۷۔محمد اکرم نے محمد اقبال کی اولاد کے دعوی کی بناء یہ بتائی ہے کہ چونکہ سرکاری طورپرزمینیں ابھی نام ہورہی ہیں اورفوت ہونے والے شخص کی زمین چونکہ سب بیٹوں کے نام کی جاتی ہے تو اس بناء پرموقع سے فائدہ اٹھانے کےلیےاقبال صاحب دوبارہ دعوی کررہےہیں تاکہ مزید زمین ہتھیاسکے،جبکہ ان کو پورا حق مل چکاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب بھائی محمد اقبال مرحوم کا انتقال اپنی والدہ کی زندگی میں ہی ہوگیاتھا جیسے کہ سوال میں لکھاہے کہ " ان کا انتقال 2019 میں ہوا والدہ کی زندگی میں اور پھر تقریبادوسال بعد والدہ کا انتقال  2021میں ہوا "تووالدہ کی میراث میں تو ان کا حصہ نہیں بنتا،لہذا اس کا مطالبہ تومرحوم اقبال کی اولاد نہیں کرسکتیں۔

جہاں تک محمد اقبال مرحوم کااپنےوالدمحمد بشیرمرحوم  سے ترکہ سے کچھ پانےکا تعلق ہے تو اس میں یہ تفصیل ہےکہ زندگی میں مرحوم بشیرصاحب نے اپنے بیٹوں میں سے جس جس کو بھی زمین دی تھی تو وہ ان کی ہوگئی تھی،کیونکہ محمداقبال کوتو الگ کرکے دیدی گئی تھی اورباقی تین بیٹوں محمداکرم، محمد اسلم اور محمد یاسین  کو گوالگ کرکےنہیں دی تھی مگرمحمد یاسین اورمحمد اسلم نالغ تھے اوروالد کا قبضہ ان کا قبضہ شمارہوتا ہے اورمحمد اکرم کو وفات سے دو سال پہلے قبضہ دیدیاتھا اورکہا کہ تھا کہ یہ تم تینوں میں تقسیم کردواس طرح وہ وکیل بن گئے اوروکیل کی تقسیم مؤکل کی تقسیم ہوتی ہے لہذا یہ ہبہ  تام ہوگیاتھا لہذا س زمین میں بھی محمد اقبال اوراس کی اولاد کاکوئی حق نہیں  ہے۔

باقی محمد بشیرمرحوم  کاجو ترکہ( موت کے وقت ملک میں  رہ جانے والی منقولہ ،غیرمنقولہ جائیداد، سامان  وغیرہ)وہ  سوال کی تصریح کے مطابق والد محمدبشیرکے انتقال کے تین مہینے کے بعد  چچا اور تایازاد بھائیوں نے سب بھائیوں کے درمیان تقسیم کردیاتھا، گھر، پلاٹ کی قیمت لگاکرمحمد اقبال صاحب کودیدی گئی تھی نیزان کے حصے میں جو بھینس آئی تھی وہ بھی ان کودیدی گئی تھی ،لہذا اب ان کا حق باقی نہیں ہے، البتہ سائل  نےفون  پربتایا کہ ماتلی میں مرحوم محمدبشیر کی ایک غیر آباد زمین ہے جو تقسیم نہیں ہوئی، تو اس میں محمد اقبال مرحوم کا حق یقیناًبنتاہے،لہذا اگرمرحوم محمداقبال کے بیٹے اس میں حصے کا مطالبہ کررہے ہیں تو اس میں وہ حق بجانب ہیں۔اسی طرح گاؤں میں ہاریوں کےلیے جو چار ایکڑ  زمین والدمرحوم نے رکھی تھی اگروہ ترکہ میں تقسیم نہیں ہوئی اوروالدنے یہ زمین ان ہاریوں کو ملک کے طورپر نہیں دی تھی،صرف عارضی رہائش کےلیے تھی تو پھریہ بھی ترکہ میں شامل ہوگی اوراس میں بھی محمد اقبال مرحوم کاحصہ بنےگا جو ان کی موت کے بعد ان کی اولاد کو ملے گا،لہذا اس میں بھی ان کا دعوی درست ہوگا۔

بھائی افضل کی میراث میں والدین کا بھی حق تھا کیونکہ اس وقت وہ حیات تھےلہذا جوحصہ والدکو شرعی طورپر ملنا تھاتو والد کے انتقال کے بعدمحمد اقبال سمیت تمام بیٹوں کی طرف منتقل ہوا  اورپھر محمد اقبال کے فوت ہونےپر ان کے بیٹوں کی طرف ان کا حصہ منتقل ہوا،مگر بھائی افضل کی میراث  کا وہ چھٹا حصہ جو والدہ  کوشرعی طورپر ملناتھاوہ باقی بیٹوں کی طرف تو جائےگا مگر محمد اقبال کی طرف نہیں جائےگا، اس لیے کہ ان کا انتقال والد ہ کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا کیونکہ والدہ 2021میں فوت ہوئی ہے اوراقبال صاحب 2019میں ،لہذاوالدہ کی میراث میں اقبال صاحب کا حصہ نہیں بنتاتھا، لہذا اقبال کی اولاد پر لازم ہے کہ یہ حصہ باقی ورثہ کو واپس کردیں ،یہ ان کاحق ہے۔

باقی تین بھائیوں نے اپنی زمین کے پیداوارسے اپنے لیے جو زمین خریدی ہے تو وہ صرف ان کی ہے ،اس میں بھی محمداقبال کا حصہ نہیں بنتا،لہذا مرحوم اقبال صاحب کی اولاد اگراس میں دعوی کرتی ہیں تو ان کا یہ دعوی  درست نہیں ہوگا۔

محمداکرم صاحب نے والد کا جوقرض 1996اور2004میں اد اکیاتھا اوراسی طرح مرحوم کے ذمہ جوٹیوب ویل کابل تھاجومحمد اکرم نے ادا کیا تھا یہ سب مرحوم بشیر کے ترکہ سے ادا کرنا لازم تھا،لہذاسب ورثہ اس میں اپنے اپنے شرعی حصہ کے حساب سے شریک ہونگے،لہذاہروارث اپنے حصے میں آنے والاقرض محمد اکرم کو دے گا،لہذا اس میں مرحوم اقبال کے ورثہ بھی حصہ دیں گے۔

سائل نے زبانی جو تفصیل بتائی ان کی روسے مرحوم بشیر کے ترکہ سے مرحوم کی بیٹیوں کو نہیں دیاگیا ہے اسی طرح والدہ کی میراث سے بھی نہیں دیا گیاہے، یہ انتہائی ظلم اورناانصافی ہےجوکہ شرعاً جائزنہیں ہے، کیونکہ شریعت  نےبیٹوں کی طرح بیٹیوں  کاحصہ بھی میراث میں رکھا ہے، لہذاان کا حق روکنا صریح زیادتی  ہے ،لہذا ان کو والدین کی میراث سے پوراپورا شرعی حصہ  دیاجائے ،بلکہ مرحوم محمد بشیرکا زندگی میں سب بیٹوں کو دینا اوربیٹیوں کومحروم رکھنا جائزطرزِعمل نہیں تھاگواس سے بیٹوں کا ملک توآگیاتھامگرمرحوم اولاد میں تفریق کی وجہ سے گناہگارہوئے،اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے،ان کواولاد کے درمیان ہدیہ میں تفریق نہیں کرنی چاہیے تھی،احادیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں ۔

محمداقبال صاحب کے اولاد کی دعوی کی بناء اگرواقعةً یہی ہوکہ سرکارمیں چونکہ زمین اب نام ہورہی ہے،لہذا حق ملنے کے باوجودموقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبارہ دعوی کیاجائے تو شرعی اعتبارسے یہ بالکل غلط اورناجائز ہے،شرعاً ہبہ تام ہونے کےلیے سرکاری کاغذات میں لکھنا،لکھواناکوئی ضروری نہیں ہوتا،بس قبضہ ضروری ہوتاہے جوکہ مسئولہ صورت میں پایاجاتاہے،مرحوم بشیر کی زندگی میں تقسیم ہونے والے مال میں بھی، جس کی تفصیل لکھ دی گئی ہے اور مرحوم محمدبشیر کے ترکہ کی تقسیم کے بعد بھی،ہاں ماتلی والی زمین چونکہ تقسیم نہیں ہوئی، اس لیے اس میں مرحوم اقبال کی اولاد کا دعوی درست ہے جیسےکہ پہلے لکھ دیاگیاہے،اسی طرح ہاریوں کو عاریت کے طورپر دی گئی زمین میں بھی جس کی تفصیل اوپر آچکی ہے۔

حوالہ جات
فإن قسّمہ أي الواهب بنفسہ أو نائبہ أو أمر الموھوب لہ بأن یقسم مع شریکہ کل ذٰلک یتمُّ بہ الہبۃ کما ہو ظاهر لمن عندہ أدنی فقہٍ۔ (شامی ۸؍۴۹۵ زکریا)
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 176)
عن حصين عن عامر قال سمعت النعمان بن بشير يقول وهو على المنبر : أعطانى أبى عطية فقالت له عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال فأتى النبى -صلى الله عليه وسلم- فقال : إنى أعطيت ابن عمرة بنت رواحة عطية وأمرتنى أن أشهدك يا رسول الله قال :« أعطيت سائر ولدك مثل هذا ». قال : لا قال :« فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم ». قال فرجع فرد عطيته. رواه البخارى فى الصحيح عن حامد بن عمر وأخرجه مسلم من وجهين آخرين عن حصين.
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 177)
عن ابن عباس قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« سووا بين أولادكم فى العطية فلو كنت مفضلا أحدا لفضلت النساء ».
وفی خلاصة الفتاوی ج: 4ص: 400
رجل لہ ابن وبنت اراد ان یھب لھما فالافضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمد وعند ابی یوسف رحمہ اللہ بینھماسواء ھو المختارلورود الآثار.
رد المحتار - (ج 24 / ص 42)
( قوله وعليه الفتوى ) أي على قول أبي يوسف : من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي.     
وفی مشکاة المصابیح:
"وعن انسرضی الله عنهقال :قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من قطع میراث وارثه قطع الله میراثه
من الجنة یوم القیامة۔رواه ابن ماجة."(کتاب الفرائض ج:1 ص: 272 ط: رحمانیه)
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..."  (ص:696, المكتبة الشاملة)
وفی فتح القدیر:
"وتصح بالایجاب والقبول والقبض) أما الإیجاب و القبول فإنه عقد و العقد ینعقد بالایجاب و القبول و
القبض لا بدّ منه لثبوت الملك ... ولنا قوله عليه صلی اللہ علیہ وسلم: لاتجوز الهبة إلا مقبوضة.قال العلامة ابن الهمام:قال صاحب النهاية أي: تصح بالإیجاب وحدہ في حقّ الواهب، و بالإیجاب و القبول في حقّ الموهوب له ... و لکن لایملکه الموهوب له إلا بالقبول و القبض."(کتاب الهبة، ص/۴۷۹،۴۸۰،۴۸۱ ج/۷ ، ط/رشیدیہ)
وفی الشامیة:
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة (وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو
 قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لايكون هبةً."  (كتاب الهبة، ص/689، ج/5، ط/سعید)
الھدایہ: (420/4، ط: مکتبہ رحمانیہ)
و لو اختلفا فی التقویم لم یلتفت الیہ، لانہ دعویٰ الغبن و لا معتبر بہ فی البیع، فکذا فی القسمۃ لوجود التراضی.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

28/2/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے