021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سنت میں نفل کی نیت کا حکم
81361نماز کا بیاننماز کےمتفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

سنت  جب نفل کی جنس سے ہے توکیا سنتِ مؤکدہ میں ہر قسم کی نفل کی نیت کرسکتے ہیں ؟اورفجر کی سنت میں بھی کرسکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 فرض اور واجب کے علاوہ جو نمازیں ہیں (خواہ وہ سنت مؤکدہ ہوں یا غیر مؤکدہ) وہ نمازیں نوافل کے حکم میں ہوتی ہیں، اور چونکہ نوافل میں وسعت ہوتی ہے، اس لیے نفل نماز میں ایک سے زائد نوافل کی نیت کرنا درست ہے، لہذا سنتِ مؤکدہ کے ساتھ تحیة الوضوء ،تحیة المسجداور صلاۃ الحاجۃ وغیرہ نوافل کی نیت کی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ عمل کو عادت نہیں بنانا چاہیے کہ دو رکعت نماز میں تمام نوافل کی نیت کرلی جائے، اور بقیہ نوافل کو مستقل طور پر ترک کر دیا جائے، بلکہ جتنا ممکن ہو سکے، زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھ کر اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

البتہ ایسے دو نوافل جن کے سبب مختلف ہوں، جیسے اشراق ، چاشت، تراویح اور تہجد، تو ایسے نوافل کو ایک نیت کے ساتھ ادا کرنا درست نہیں ہے۔

حوالہ جات
حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (باب شروط الصلاة و أركانها، 216/1، ط: دار الکتب العلمیة)
"ثم إنه إن جمع بين عبادات الوسائل في النية صح، كما لو اغتسل لجنابة وعيد وجمعة اجتمعت ونال ثواب الكل، وكما لو توضأ لنوم وبعد غيبة وأكل لحم جزور، وكذا يصح لو نوى نافلتين أو أكثر، كما لو نوى تحية مسجد وسنة وضوء وضحى وكسوف، والمعتمد أن العبادات ذات الأفعال يكتفي بالنية في أولها ولا يحتاج إليها في كل جزء اكتفاء بانسحابها عليها، ويشترط لها الإسلام والتمييز والعلم بالمنوى، وأن لا يأتي بمناف بين النية والمنوي".
الأشباہ و النظائر: (147/1)
"وأما إذا نوی نافلتین کما إذا نوی برکعتي الفجر التحیة والسنة أجزأت عنہما".
(وفی حاشیتہ: أجزأت عنہما لأن التحیة والسنة قربتان: أحدہما: وہي التحیة تحصل بلا قصدٍ فلا یمنع حصولہا قصد غیرہا وکذا لو نوی الفجر والتحیة کما في فتح القدیر قیل ولو تعرض المصنف لنفل مختلف السبب لکان أولی کمن أخر التراویح إلی آخر اللیل ونوی التراویح، وقیام آخر اللیل؛ لأن سبب التراویح غیر سبب قیام اللیل"․
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الصلوٰۃ، 440/1)
"ولو نوى فرضين....ولو نافلتين كسنة فجر وتحية مسجد فعنهما".
"(قوله ولو نافلتين) قد تطلق النافلة على ما يشمل السنة وهو المراد هنا (قوله فعنهما) ذكره في الأشباه.ثم قال: ولم أر حكم ما إذا نوى سنتين كما إذا نوى في يوم الاثنين صومه عنه وعن يوم عرفة إذا وافقه فإن مسألة التحية إنما كانت ضمنا للسنة لحصول المقصود اه أي فكذا الصوم عن اليومين وأيده العلامة البيري بأنه يجزيه الصوم في الواجبين، ففي غيرهما أولى لما في خزانة الأكمل: لو قال لله علي أن أصوم رجبا ثم صام عن كفارة ظهار شهرين متتابعين أحدهما رجب أجزأه، بخلاف ما لو كان أحدهما رمضان، ولو نذر صوم جميع عمره ثم وجب صوم شهرين عن ظهار أو أوجب صوم شهر بعينه ثم قضى فيه صوم رمضان جاز من غير أن يلحقه شيء اه لكن ليس في هذا جمع بين نيتين بل هو نية واحدة أجزأت عن صومين، ولم يذكر الشارح هذه المسألة لأن كلامه في الصلاة ولا تتأتى فيها. ويمكن تصويره فيما لو نوى سنة العشاء والتهجد بناء على ما رجحه ابن الهمام من أن التهجد في حقنا سنة".کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 143101200041

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

30/صفر1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے