021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایمان کیاہوتاہے؟
81381ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتی صاحبان ان درج ذیل سوالات کے بارےمیں؟

ایمان کیا ہوتا ہے تفصیل  ذکرفرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایمان کی تعریف کتب ِ فقہ اور عقائد میں یوں کی گئی ہے:

 ھو التصدیق بما علم بالضرورۃ مجئي الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم بہ إجمالا فیما علم إجمالا وتفصیلاً فیما علم تفصیلاً۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کااللہ تعالیٰ کی طرف سے جن احکام کالانا ضروری وبدیہی ہو،ان سب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احکام اجمالا بیان فرمائے ان میں اجمالاً اور جو احکام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیلا بیان فرمائے ان میں تفصیلاً تصدیق کرنا۔‘‘

اس تعریف میں لفظ تصدیق سے محض جاننا یا صحیح سمجھنا مراد نہیں،اس لیے کہ تصدیق باعتبارِ لغت اگرچہ محض دل سے جاننے یا صحیح سمجھنے کو ہی کہا جاتا ہے،لیکن شرعی لحاظ سے تصدیق کے مفہوم میں تین چیزیں شامل ہیں

۱۔معرفت (یعنی جاننا، جس کی ضد جہالت ہے)۔

۲۔اذعان( یعنی دل سےصحیح اوریقینی سمجھنا،جس کی ضد شک اور تکذیب ہے)۔

۳۔انقیاد و استسلام(دل سے ماننااورقبول کرنا یعنی اطاعت وپیروی کو ضروری سمجھنا، جس کی ضد کفر اور انکار ہے)۔

گویا ایمان کی حقیقت اگرچہ محض دل سے کسی چیز کو صحیح اور یقینی سمجھنا ہی ہے،لیکن شریعت نے ایمان کے تحقق و ثبوت کے لیے معرفت واذعان (جاننے اور صحیح سمجھنے) کے ساتھ انقیاد و تسلیم (دل سےماننے وقبول کرنے) کو بھی شرط قرار دیا ہے۔ حاصل یہ کہ ایمان کے ثبوت کے لیے صرف تصدیق قلبی(علم ویقین)کافی نہیں،بلکہ اس کے ساتھ انقیاد و تسلیم (دل سے واجب الاطاعت ولازمی ماننا(بھی ضروری ہے۔

حوالہ جات
۔۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

02/ربیع الاول      1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے