021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوہ، سات بیٹوں اور دو بیٹیوں میں میراث کی تقسیم
81348میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

مفتی صاحب! ہمارے خاندان میں وراثت کے متعلق امور طے کیے جارہے ہیں۔ اس معاملے میں آپ کی رہنمائی چاہیے۔ میرے دادا کا انتقال ہوا ہے، میرے والد صاحب لوگ کل سات بھائی اور دو بہنیں ہیں، میری دادی بھی حیات ہیں۔ دادا صاحب کے انتقال کے وقت ان کے والدین، دادا، دادی اور نانی میں سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ میرے دادا کے کل تین گھر اور دو ایکڑ زمین ہے۔

  1. پہلا گھر جس میں اولاد چھوٹی تھی۔ جب انہوں نے اپنے دو بیٹوں کی شادی کی تو وہ گھر ان کو عارضی طور پر دیا، کوئی معاملہ متعین نہیں کیا، اور ایک نیا گھر لے کر باقی پانچ بیٹوں کے ساتھ ادھر منتقل  ہوئے۔ یہ پہلا گھر ہمارے دادا صاحب کو اپنے والد سے میراث میں ملا تھا۔ یہ گھر ساڑھے چار مرلہ ہے۔  
  2.  دوسرے گھر میں دو بیٹوں کی شادی کی اور ان کو عارضی طور پر گھر دیا، معاملہ متعین نہیں کیا اور آگے نیا گھر لیا اور تین بیٹوں کے ساتھ وہاں منتقل ہوگئے ۔ یہ گھر دادا نے خریدا تھا، چار پانچ بیٹے کما رہے تھے، وہ پیسے دادا کو ملکیتًا دیدیتے تھے۔ یہ گھر سات  مرلہ ہے۔
  3. تیسرا گھر رقبہ میں بڑا خریدا اور اس کو ان تین بیٹوں کے نام پر منتقل کروایا اور کہا کہ یہ میری اور ان تین بیٹوں کی مشترکہ رقم سے خریدا ہے۔ اور ایسے ہی تھا کہ ان کے چھوٹے تین بیٹوں نے اس میں مشترکہ طور پر رقم جمع بھی کروائی۔ یہ گھر بائیس (22) مرلہ ہے جو 7.3 کے حساب سے تینوں بیٹوں کے نام ہے۔

میری دادی کہتی ہے اور شاید دادا کی بھی یہی رائے تھی کہ پہلا گھر جو دو بڑے بھائی اس میں رہتے ہیں، ان کا اور باقی پانچوں کا ہے۔ دوسرا گھر جس میں دو بھائی رہتے ہیں، ان کا اور آخری تین بھائیوں کا ہے۔ اور تیسرا گھر ان آخری تینوں کا ہی ہے۔ اس طرح آخری تین بیٹوں کا تینوں گھروں میں حق ہے، ان سے دو بڑوں کا دو گھروں میں، اور پہلے دو بڑوں کا صرف پہلے گھر میں  کچھ حصہ ہے ۔ جبکہ ان بڑے چار بھائیوں کا کہنا ہے کہ ہم نے بھی  جو کمایا والدین کو دیا، اپنی کمائی سے اپنے والدین کو غریبی سے نکالا، ان کی بنیاد بنانے والے ہم ہیں، جس سے آگے انہوں نے گھر بنائے اور پراپرٹی خریدی۔ لہٰذا پہلا گھر پہلے دو بھائیوں کا  ہونا چاہیے، اور دوسرا گھر اگلے دو بھائیوں کا ہونا چاہیے اور تیسرا گھر تو پہلے سے ہی آخری تینوں کے نام ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان گھروں کو شرعی حیثیت سے کیسے تقسیم کیا جائے گا؟اور والدہ اور بہنوں کا حصہ صرف زمین میں ہوگا یا ان گھروں میں بھی ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ والد اپنی زندگی میں اولاد کو جو کچھ دیتا ہے، وہ شرعی اعتبار سے ہبہ یعنی گفٹ کہلاتا ہے، ہبہ کے لیے ایجاب و قبول (Offer and Acceptance) ضروری ہے، ایجاب و قبول کے بغیر ہبہ نہیں ہوتا۔ نیز اگر کسی قابلِ تقسیم چیز کا ہبہ کیا جا رہا ہو تو اس میں ہر شخص کا حصہ متعین کرنا اور الگ کر کے اس کے قبضے میں دینا بھی ضروری ہے۔ مزید یہ کہ ہبہ میں اولاد کے درمیان برابری یا کم از کم میراث کے بقدر سب کو حصہ دینا ضروری ہے، معقول وجہ کے بغیر کسی کو اس سے زیادہ دینا یا کسی کو کم دینا جائز نہیں، بالخصوص لڑکیوں کو کچھ نہ دینا سخت ناجائز ہے۔

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق پہلے دونوں گھر تو بلاشبہہ مکمل آپ کے دادا کی میراث میں شامل ہیں جس میں ان کے تمام ورثا (سات بیٹے، دو بیٹیاں اور بیوہ) کو حصہ ملے گا۔ جہاں تک تیسرے گھر کا تعلق ہے تو وہ صرف نام کرنے کی وجہ سے اس میں والد کے ساتھ رہنے والے تین بیٹوں کی ملکیت نہیں بنا، البتہ اگر انہوں نے واقعتا اس کی خریداری میں رقم شامل کی تھی اور یہ رقم انہوں نے والد صاحب کو ملکیتا نہیں دی تھی، بلکہ اپنے لیے اس گھر کی خریداری میں شامل کی تھی تو پھر یہ گھر آپ کے دادا اور ان تین چچاؤں کے درمیان مشترکہ ہے؛ لہٰذا اس میں دادا کی جتنی رقم لگی تھی، اس کے بقدر گھر کا حصہ دادا کی میراث میں شامل ہوکر تمام ورثا (سات بیٹے، دو بیٹیاں اور بیوہ) کو ملے گا، جبکہ ان تین بیٹوں نے اپنے لیے خریداری کی نیت سے جتنی جتنی رقم شامل کی تھی، باقی گھر اس کے حساب سے ان تینوں کی ملکیت شمار ہوگا۔ لیکن اگر ان تین بیٹوں نے رقم والد کو ملکیتا دی تھی یعنی اپنے والد کو اس رقم کا مالک بنایا تھا، پھر والد نے اس سے یہ گھر خریدا تھا تو پھر یہ پورا گھر والد کے ترکہ میں شامل ہوکر تمام ورثا میں تقسیم ہوگا۔

  میراث تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دادا مرحوم کے ترکہ میں سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین كےمتوسط اخراجات اداكئے جائیں،اگر یہ اخراجات کسی نے احسان کے طور پر ادا کردئیے ہوں تو اس صورت میں یہ اخراجات ترکہ سے نہیں نکالے جائیں گے۔ پھر دیکھیں اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض واجب الادا ہو تو اس کو ادا کریں ، اگر مرحوم نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو اور اس نے اپنی دلی خوشی سے معاف بھی نہ کیا ہو تو وہ بھی قرض میں شامل ہے جو اس کو دینا ضروری ہے۔اس کے بعد دیکھیں اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال میں سے ایک تہائی (3/1)مال کی حد تک اس پر عمل کریں۔ اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کے کُل ایک سو اٹھائیس (128) حصے کر کے بیوہ (سائل کی دادی) کو سولہ (16) حصے، سات بیٹوں میں سے ہر ایک کو چودہ، چودہ (14، 14) حصے اور دو بیٹیوں میں سے ہر ایک کو سات، سات (7، 7) حصے دیدیں۔    

حوالہ جات
القرآن الکریم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ } [النساء: 11].
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 12].
السراجی فی المیراث: 18:
أما للزوجات فحالتان: الربع للواحدة فصاعدة عند عدم الولد و ولد الابن و إن سفل، و الثمن مع الولد أو ولد الولد و إن سفل.
و فی صفحة: 36:
العصبات النسبیة ثلاثة:  عصبة بنفسه، وعصبة بغیره، و عصبة مع غیره. أما العصبة بنفسه فکل ذکر لا تدخل فی نسبته إلی المیت أنثی، وهم أربعة أصناف: جزء المیت، و أصله، و جزء أبیه، و جزء جده، الأقرب فالأقرب، یرجحون بقرب الدرجة، أعنی أولاهم بالمیراث جزء المیت أی البنون ثم بنوهم و إن سفلوا، ثم أصله أی الأب ثم الجد أی أب الأب و إن علا، ثم جزء أبیه أی الإخوة ثم بنوهم وإن سفلوا، ثم جزء جده أی الأعمام ثم بنوهم وإن سفلوا.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       1/ ربیع الاول/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے