021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لاولد(کلالہ)بھائی کے مال میں دوسرے بھائی کاحصہ
81371میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے  میں کہ

حاجی سیف الدین مرحوم نے دو شادیاں کیں، دوسری شادی پہلی بیوی کے فوت ہونے کے بعد کی، پہلی بیوی سے اسلم اور گلزاراں اور دوسری بیوی سے پانچ بیٹے اصغر، طاہر، اشرف، اکرم اور محمود پیدا ہوئے۔ حاجی سیف الدین صاحب نے اپنی تمام جائیداد اپنی زندگی ہی میں تمام بچوں میں تقسیم کر دی تھی۔ اصغر اور طاہر نے ایک دکان جو کہ ان کے حصہ میں آئی تھی اس پر کام شروع کیا۔ آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا۔ پھر اصغر کی وفات ہو گئی جس کی کوئی اولاد نہیں تھی، بیوی حیات ہے۔ طاہر نے بھائی کے گھر کا خرچہ بھی اٹھا لیا اب طاہر کا بھی انتقال ہو گیا ہے، جس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، بیوی حیات ہے۔ حاجی سیف الدین صاحب کی تمام اولاد فوت ہو چکی ہے سوائے ایک بیٹے محمود کے جو کہ بہت اچھے کاروبار کا مالک ہے لیکن بضد ہے کہ میرے بھائی کے حصہ میں میرا حصہ بھی بنتا ہے۔ طاہر اور اصغر کی دکان کی موجودہ فرضی قیمت ایک کروڑ روپے ہے۔ برائے مہربانی شرعی نقطہ نظر سے اس کی تقسیم فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

محمد طاہرمرحوم کی چونکہ بیوی اور اولاد( ایک بیٹا اورتین بیٹیاں) موجود ہیں لہذا بھائی محمود کا محمد طاہر مرحوم کی میراث میں کوئی حصہ نہیں بنتا،لہذا آدھی دکان جو محمدطاہر کی تھی اس میں تو محمود کا کوئی حصہ نہیں، یہ مرحوم محمدطاہر کی زوجہ اوراولاد کا حق ہے۔

جہاں تک دکان کے دوسرے آدھے حصے کا تعلق ہے جوکہ لا ولد بھائی اصغرکا تھا تو اس میں محمد اصغر کی حیات میں تو محمود کا کوئی حصہ نہیں بنتاتھا مگر جب اصغرمرحوم لاولدفوت ہواتو پھر اس میں بھائی محمود کا حق بنا  اوروہ اس طرح کہ مرحوم اصغرکی بیوی کا چوتھا حصہ ہے،مرحوم کی بیوی کامذکورہ حصہ نکالنے کے بعد جوباقی بچے وہ بھائی محمود اورطاہر کا آدھا آدھاہے، پھرمحمد طاہرمرحوم والاحصہ ان کی موت کی وجہ سے ان کی اولاد کی طرف منتقل ہوا اور اس حصہ میں محمود کا کوئی حق نہیں،ہاں اصغرمرحوم کی بیوی کا چوتھا حصہ نکالنےکے بعدجو باقی کا آدھا حصہ ہے وہ بھائی محمود کا حق ہے، اس میں ان کا دعوی درست ہے،لہذا مذکورہ دکان  میں محمود، مرحوم اصغرکی بیوی،مرحوم طاہر کی بیوی اوراس کے جملہ اولاد کا حق ہے،قیمت لگانے کے بعد اس کی تقسیم کاطریقہ کاردرجِ ذیل ہوگا ۔

مورث اعلی اصغر/ کل مال : ٪100

دیگرتفصیل

فیصدی حصہ

مورث اعلی سے رشتہ

زندہ ورثہ

نمبر شمار

خاونداصغر سے

25٪

بیوی

زوجہ اصغر

1

بھائی اصغرسے

37٪

بھائی

 محمود

2

خاوند طاہرسے

4.6875٪

بھابی

زوجہ طاہر

3

والدطاہر سے

13.125

بھتیجا

طاہرکا بیٹا

4

والدطاہر سے

6.5625٪

بھتیجی

طاہر کی پہلی بیٹی

5

والدطاہر سے

6.5625٪

بھتیجی

طاہر کی دوسری بیٹی

6

والدطاہر سے

6.5625٪

بھتیجی

طاہر کی تیسری بیٹی

7

٪100

ٹوٹل:

 
حوالہ جات
قال للہ تعالی :
 وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ [النساء/12]
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ [النساء/12]
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ............ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ [النساء/11]
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..."  (ص:696, المكتبة الشاملة)
قال في الفتاوى الهندية:
"وهوأن يموت بعض الورثةقبل قسمة التركة كذا في محيط السرخسي وإذا مات الرجل ،ولم تقسم تركته
 حتى مات بعض ورثته ......فإن كانت ورثة الميت هم ورثة الميت الأول،ولا تغير في القسمة تقسم قسمة واحدة ؛ لأنه لا فائدة في تكرار القسمة بيانه إذا مات وترك بنين وبنات ثم مات أحد البنين أو إحدى البنات ولا وارث له سوى الإخوة والأخوات قسمت التركة بين الباقين على صفة واحدة للذكر مثل حظ الأنثيين فيكتفي بقسمة واحدة بينهم وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول فإنه تقسم تركة الميت الأول ، أولا ليتبين نصيب الثاني ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته فإن كان يستقيم قسمة نصيبه بين ورثته من غير كسر فلا حاجة إلى الضرب."     (ج:51,ص:412, المكتبة الشاملة)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

یکم ربیع الاول 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے