021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح کے موقع پر دیے جانے والے زیورات کا حکم
81345نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

میرے نکاح کے موقع پر میری والدہ نے میری بیوی کو کچھ زیورات دیے تھے، ہماری برادری میں عرف یہ ہے کہ نکاح کے موقع پر لڑکی اور لڑکے کو دیے جانے والے زیورات عاریت شمار ہوتے ہیں، یعنی لڑکی کو لڑکے کے والدین کی طرف سے اور لڑکے کو لڑکی کے والدین کی طرف سے زیورات صرف استعمال کے لیے دیے جاتے ہیں، اب میری بیوی نے عدالت سے خلع کی ڈگری لی ہے تو میں نے اپنی مشاورت کمیٹی کے سامنے یہ بات رکھی ہے کہ وہ زیور میری والدہ کو واپس کیے جائیں تو لڑکی نے کہا یہ میرے لیے ہدیہ ہیں، جبکہ میری والدہ نے یہ زیور کبھی اس کو ہدیہ کے طور پر نہیں دیے، سوال یہ ہے کہ ان زیورات کا مالک کون ہے، کیا میری والدہ ان زیورات کی واپسی کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔نیز سوال کے ساتھ مشاورت کمیٹی کا فیصلہ بھی منسلک ہے، اس کو بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل اور برادری کی مشاورٹ کمیٹی کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی برادری کا عرف یہ ہے کہ نکاح کے موقع پر فریقین کو زیور عاریت کے طور پر دیے جاتے ہیں اور عاریت پر دی گئی چیز میں ملکیت منتقل نہیں ہوتی، بلکہ پہلا مالک ہی بدستور اس کا مالک رہتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کی برادری کے عرف کے مطابق آپ کی والدہ کی طرف سے آپ کی بیوی کو نکاح کے موقع پر عاریت کے طور پر جو زیورات دیے گئے تھے وہ آپ کی والدہ کی ملکیت ہیں وہ جب چاہیں اپنے زیورات کی واپسی کا مطالبہ کر سکتی ہیں اور آپ کی بیوی کو وہ زیورات روکنے کوئی حق نہیں ہے، کسی مردوعورت کا ایک درہم ناحق روکنے پر قرآن وسنت میں سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں، چنانچہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس کا ترجمہ یہ ہے:

’’جس کے ذمے  کسی  بھائی کا کچھ حق ہو، اس کی آبرو کے متعلق یا اور کسی قسم کا، وہ اس سے آج معاف کرالے، ایسے وقت سے پہلے کہ نہ اس کے پاس دینار ہو گا نہ درہم، اگر اس کے پاس کچھ عملِ صالح ہو گا تو اس کے حق کے بقدر اس سے نیک عمل لے کر صاحبِ  حق کو دے دیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو صاحبِ حق کے گناہ  دوسرے شخص پر لاد دیے جائیں گے۔‘‘

لہذا آپ کی بیوی پر لازم ہے کہ وہ آپ کی والدہ کی طرف سے عاریت کے طور پر دیے گئے زیورات ان کو واپس کرے، ورنہ وہ سخت گناہ گار ہوں گی اور یہ چیز آخرت میں پکڑ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

حوالہ جات
صحيح البخاري(3/ 129) دار الفكر - سوريَّة - دمشق:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كانت له مظلمة لأخيه من عرضه أو شيء، فليتحلله منه اليوم، قبل أن لا يكون [ص:130] دينار ولا درهم، إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته، وإن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه»."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 153) دار الفكر-بيروت:
قال في النهر: وأقول وينبغي أن لا يقبل قوله أيضا في الثياب المحمولة مع السكر ونحوه للعرف. اهـ. قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 157) دار الفكر-بيروت:
"والمعتمد البناء على العرف كما علمت"

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

یکم ربیع الاول 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے