021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک شریک کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے اور دوسرے شریک کے درمیان اختلاف
81393دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

ایک شخص نے اپنے بالغ بیٹے کو وصیت کی کہ فلاں کی زرعی اراضی میرے نام ہے؛ کیونکہ وہ مشترکہ خریدی گئی تھی، وصیت کرتے وقت اس شخص کا یہ بیٹا اور وہ دوسرا شراکت دار دونوں موجود تھے۔ بعد میں وہ شخص وفات پاگیا۔ اب مرحوم کا بیٹا وصیت کا اقرار کر رہا ہے، لیکن کہہ رہا ہے کہ میں یہ زمین دے چکا ہوں، جبکہ وہ دوسرا شخص کہتا ہے کہ مجھے زمین نہیں دی، اگر دی ہے تو اس کا کوئی ثبوت تو ہوگا نا ؟ وہ کہاں ہے ؟ ہم پٹواری کے پاس گئے کہ اگر آپ نے زمین دی ہے تو پٹواری کے پاس اس کا اندراج ہونا چاہیے۔ پٹواری نے اپنا رجسٹر دیکھا، اس نے کہا میرے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ دوسرے شراکت دار کی پانچ (5) کنال زمین اس شخص کے نام پر تھی۔ مرحوم اور دوسرے شراکت دار کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں، نیز جب مرحوم نے دوسرے شراکت دار کی موجودگی میں اپنے بیٹے کو یہ بات بتائی اس وقت وہ ٹھیک اور صحت مند تھا۔  

اس مسئلے کا جواب دیں؛ تاکہ مرحوم کا بیٹا مطمئن ہوجائے اور دوسرے شخص کی بھی تسلی ہوجائے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو اگر مرحوم کے بیٹے کے پاس اپنے اس دعویٰ پر (کہ اس نے دوسرے شریک کو اس کی زمین دیدی ہے) دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں بطورِ گواہ موجود ہوں یا اس کے پاس زمین دینے کی کوئی ایسی معتبر قانونی دستاویز ہو جس میں جعل سازی اور تبدیلی کا امکان نہ ہو تو اس کا دعویٰ ثابت مانا جائے گا۔ لیکن اگر اس کے پاس نہ تو زمین دینے کے گواہ ہوں، نہ ہی کوئی اور قابلِ اعتماد ثبوت ہو تو  پھر دوسرے شریک پر قسم لازم ہوگی، اگر وہ قسم اٹھا کر کہے کہ اس نے مجھے میری زمین نہیں دی تو اس کی بات تسلیم کی جائے گی، اور اگر وہ قسم اٹھانے سے انکار کرے تو پھر مرحوم کے بیٹے کی بات کو درست مانا جائے گا۔  

حوالہ جات
الأشباه والنظائر (ص: 76):
الأصل بقاء ما كان على ما كان………..ومن فروع ذلك : ما لو كان لزيد على عمرو ألف مثلا، فبرهن عمرو على الأداء أو الإبراء، فبرهن على أن له عليه ألفا لم تقبل، حتى يبرهن أنها حادثة بعد الأداء أو الإبراء.
المجلة مع شرحها للعلامة الأتاسي (1/20):
 المادة 5: الأصل بقاء ما كان على ما كان.
الشرح: یعني أن الذي ثبت علی حال في الزمان الماضي ثبوتا أو نفیا، یبقی علی حاله و لایتغیر ما لم یوجد دلیل یغیره. وهذا هو الاستصحاب، مأخوذ من الاستصحاب اللغوي، وهو الملازمة وعدم المفارقة.
المجلة مع شرحها للعلامة الأتاسي (1/218):
 المادة 77: البينة لاثبات خلاف الظاهر، واليمين لإبقاء الأصل.
الشرح: وذلك لأن من یکذبه الظاهر أشد احتیاجا لتقویة کلامه ممن یصدقها لظاهر، والبینات لکونها من کلام غیر الخصمین أقوی حجة من الیمین لکونها من کلام الخصم، أعني المدعی علیه، فجعلت للمدعین، والیمین حجة من یتمسك ببقاء الأصل والظاهر علی حاله، فجعلت للمدعی علیه؛ لأن ظاهر الحال یشهد له.
المجلة مع شرحها للعلامة الأتاسي (5/505):
المادة 1774: الأمين يصدق بيمينه في براءة ذمته، كما إذا ادعى المودع الوديعة، وقال الوديع: أنا رددتها إليك فالقول له مع اليمين، ولكن إذا أراد أن يقيم البينة؛ ليخلص من اليمين، فتسمع بينته.
الشرح: الأمین أي کل من کان المال في یده أمانة(یصدق بیمینه لا في براءة ذمته) إذا لم یکذبه الظاهر، وإلا فلا بد من البینة. کالوکیل والوصي والمتولي والمضارب والشریك والمستعیر والملتقط والمرتهن في الزائد عن مقدار الدین والأجیر الخاص في ما تحت یده. والحاصل أن کل من کانت یده ید أمانة ولیس المال مضمونًا علیه، حکمهم کالمودع، یبرأ بما یبرأ به المودع ویضمن بما یضمن به………..  الحاصل کما في الأنقرویة: أن المقبوض في ید الوکیل بجهة التوکیل بالبیع والشراء وقبض الدین والعین وقضاء الدین، أمانة بمنزلة الودیعة، فیقبل قوله في ما یدعیه بیمینه، إلا الوکیل بقبض الدین إذا ادعی بعد موت الموکل أنه کان قبضه في حیاته ودفعه إلیه، فإنه لایقبل إلا ببینة؛ لأنه حکی أمرا لایملك استئنافه، و في ما إذا  ادعی بعد موت الموکل أنه اشتری لنفسه وکان الثمن منقودا، وفي ما إذا قال بعد عزله: بعته أمس وکذبه الموکل وفي ما إذا قال بعد موت الموکل: بعته من فلان بألف درهم وقبضتها وهلکت وکذبته الورثة في البیع؛ فإنه لایصدق إذا کان المبیع قائما، بخلاف ما إذا کان المبیع مستهلکا اه، من الفن الثاني من الأشباه.
والفرق بین ما إذا کان المبیع قائما و ما إذا کان هالکا، ما في هامش الأنقرویة أنه إذا کان هالکا فحاصل اختلافهما في الحال في الضمان علی الوکیل في زوال المبیع عن ملك الموکل وبقائه علی ملکه؛ لأنه بالهلاك زال ملکه باتفاقهما، وإنما اختلافهما في إیجاب الضمان علی الوکیل للموکل بقوله للوکیل بعت وسلمت بعد ما عزلتك عن الوکالة، فقد صرت ضامنا، وقد أنکر الوکیل ذلك، والضمان کان منتفیا عن الوکیل في الأصل، فهو ینفي الضمان بتمسکه بما هو الثابت في الأصل، فیجعل القول قوله حتی یثبت غیره. فأما إذا کان المبیع قائما فالملك فیه باق، وحاصل اختلافهما إنما وقع في زواله عن ملك الموکل أوبقائه علی ملکه، فالوکیل یدعي زواله عن ملکه، فکان الموکل في ما یدعي متمسکا بما هو الأصل، فیکون القول قوله، کما في الذخیرة.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       2/ ربیع الاول/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے