021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کی دھمکی سے طلاق نامہ پر دستخط کرنے کا حکم
81370طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

عرض یہ ہے کہ میں  محمد ........ جو لیاقت آباد میں رہائش پذیر ہوں ۔میرا نکاح زینب (فرضی نام ) کے ساتھ 06دسمبر 2020کو ہوا تھا۔ حق مہر 1لاکھ مقرر کیا گیا تھا ۔ جو کہ اس وقت ادا نہیں کیا گیا تھا اور ابھی تک ادا نہیں کیا گیا ہے۔

شروع شروع میں میری ازدواجی زندگی اچھی گزر رہی تھی، وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی اچھی یا بری عادتیں بھی سامنے آتی ہیں،جس میں سب سے بری عادت ان کا شدید غصہ ہے، جس کی وجہ سے مجھے تین سے چار سالوں کے درمیان بہت تکالیف کا سامنا کر نا پڑا، اس میں میری اپنی کئی غلطیاں تھیں، جس کا مجھے بھی احساس ہوتا تھا، میں ان کو سمجھاتا تھا، میری جو عادتیں بری ہیں وہ میں ٹھیک کر لوں گا ، لیکن ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی اور کہتی تھی کہ آپ ہو ہی اسی طرح کے انسان ۔

میری بیوی شادی سے پہلے جاب کرتی تھی اور ایک اچھے عہدے پر فائز تھی تو شاید ان کو گھر میں روک ٹوک بہت بری لگتی تھی، پھر سب چیزیں درست ہوجاتی تھی، خیر گزشتہ 8ماہ قبل گھر میں شدید جھگڑا ہوا انہوں نے طلاق کا مطالبہ کیا، پر اس وقت حق مہر نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اس وقت کوئی قدم نہیں اٹھایا اس دوران انہوں نے تھانے میں میری رپورٹ لکھوائی تھی کہ یہ انسان مجھے مارتا پیٹتا ہے، اس وقت میں کافی دباؤ میں اور عزت کی وجہ سے خاموش ہوگیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کے گھر پر پولیس موبائل آئی تھی، تھا نے لے جانے کے لیے جو کہ انہوں نےپہلے جا کر رپورٹ کروا دی تھی اس وجہ سے موبائل آئی تھی اور ایک ڈر یہ بیٹھ گیا تھا کہ اگر میں نے طلاق کا اراداہ کیا تو ایسا نہ ہو کہ یہ مجھے نقصان پہنچائیں، اس وجہ سے میں کچھ نہیں کرپارہا تھا پھر میں نے ان کو سمجھایا پھر سب چیزیں صحیح ہوتی رہیں، نوک جھونگ انکی ہمیشہ سے رہتی تھی۔

11ستمبر 2023کو 6دن پہلے میری بیوی نے کسی بات پر جھگڑا کیا، جب کہ میں ان کو آگاہی دے رہا تھا کہ خاموش ہوجاؤکوئی بات نہیں کرو اس وقت مجھے بہت غصہ آیا ہوا تھا میں نے ان کے منہ پر ایک تھپڑ مارا، جس پر یہ آپے سے باہر ہوگئی اور مجھے کورٹ جانے کے لیے مجبور کیا گیا کہ ان کو خلع لینی ہے اس وقت بھی میں نے سمجھایا، آج مت چلو کل چلنا، اس لیے کہا؛ تاکہ ان کا غصہ اتر جائے اور کورٹ جانے کی ضد نہ کریں، لیکن ان کو نہیں سمجھ آیا،  وہ اپنی ضد پر اڑی رہیں، اس وجہ سے میں اپنی بیوی کے ساتھ سٹی کورٹ گیا اس نیت سے کہ یہ خلع لینا چا ہ رہی ہیں، میرا طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا وہاں گئے تو معاملات کچھ اور سامنے آئے جب وکیل سے بات چیت ہوئی انہوں نے کہا کہ خلع فور اً نہیں ہوتا، کیس کیا جائے گا تووکیل نے اپنی طرف سے میری بیوی کو مشورہ دیا کہ باہمی رضا مندی سے طلاق ہوجائے گی اور حق مہر بھی آپ معاف کررہی ہیں بس آپ لو گ یہ کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ معاملہ طلاق کا ہی تھا میں نے صاف انکار کیا۔بیوی نے کہاکہ اگر دستخط نہیں کئے تو تمہارے ساتھ بہت برا ہوگا، مجھے دو گھنٹے لگ گئے تاکہ معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوجائے اور ہم گھر چلے جائے پر ایسا نہیں ہوا ٹائم جتنا گزرتا رہا، ان کی بد تمیزیاں اور بڑھتی چلی گئیں اور دھمکی دی گئی اس وجہ سے مجبور ہو کر میں نے کسی اور نیت سے دستخط کردیے ۔اوردو دن بعد میری بیوی کو بھی احساس ہو ا میں اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کو شدید غصہ آتا ہے ۔

میں نے مفتی طارق مسعود صاحب کا بیا ن سنا تھا جس میں انہوں نے یہی کہا کہ زبردستی طلاق نامہ پر دستخط کروائیں تو طلاق واقع نہیں ہوتی، اس کے لیے شوہر کو زبان سے کہنا لازم ہوتا ہے بس اسی امید پر میں فتویٰ لے رہا ہوں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی گنجائش نکل سکے تو رہنمائی کردیں میری بیوی کو بھی اب شدت سے احساس ہوگیا ہے۔طلاق نامہ سوال کےساتھ منسلک ہے۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ میں نے بیوی کا حق مہر نہیں دیا اور میں اس کا ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ کا مقروض بھی ہوں اور وہ یہ کہہ رہی تھی کہ اگر آپ نے دستخط نہ کیے تو میں اپنے بھائیوں کو بلاؤں گی اور اس کے بھائی پہلے بھی ایک مرتبہ مارنے کے لیے مجھ پر ہاتھ اٹھا چکے ہیں، اس لیے مجھے اندیشہ تھا کہ طلاق نامے پر دستخط نہ کرنے کی صورت میں وہ اپنے بھائیوں اور موبائل پولیس کو بلامیری بے عزتی اورنقصان پہنچائےگی، کیونکہ ایک مرتبہ پہلے بھی وہ میرے خلاف پولیس کو بلا چکی ہے۔ اگرچہ اب اس کو احساس ہے اور اس کا میرے پاس میسج آیا ہے کہ ہم صلح کر لیتے ہیں۔ البتہ اگر میں اس کا حق مہر دے چکا ہوتا اور اس کا مقروض نہ ہوتا تو میں دستخط کرنے میں اتنا نہ گھبراتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق طلاق نامہ پر دستخط کرتے وقت آپ پربالفعل کسی قسم کازوراور جبر نہیں تھا، بلکہ صرف بیوی کی طرف سے بھائیوں اور پولیس کے ذریعہ وباؤ ڈالے جانے کا خطرہ لاحق تھا، جبکہ اس میں یہ احتمال بھی تھا کہ آپ کی بیوی ایسا نہ کرتی، کیونکہ آپ نے سوال میں ذکر کیا کہ میری بیوی غصہ اتر جانے کے بعد نارمل ہو جاتی ہےاور اپنے کیے پر افسوس بھی کرتی ہے، جیسا کہ اب وہ طلاق نامہ پر دستخط کروانے کے باوجود آپ کو صلح کرنے کا کہہ رہی ہے۔اس لیے صرف اپنے گمان کے مطابق بیوی کی دھمکی کو حقیقت پر محمول کرکے  اکراہ اور زبردستی قرار دینا مشکل ہے۔

دوسری بات یہ کہ اگر اس کو اکراہ تسلیم بھی کیا جائے تو بھی چونکہ آپ اپنی بیوی کے حق مہر اور دیگر رقم کے مقروض تھے اس لیے آپ کو اس کی طرف سے نقصان پہنچائے جانے کا خطرہ تھا، اگر آپ نے حق مہر ادا کیا ہوتا اور اپنی بیوی کے مقروض نہ ہوتے تو آپ کو اس قدر خطرہ لاحق نہ ہوتا،( جیسا کہ سوال کےآخر میں آپ نے ذکر کیا ہے)جبکہ اصولی طور پر حق مہر اور قرض کی ادائیگی شرعاً بہرصورت آپ کے ذمہ لازم ہے اور اپنا حق وصول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا آپ کی بیوی کا شرعی حق ہے،اس لیے یہ اپنے حق کی وصولی پر اکراہ (زوروزبردستی) شمار ہو گا،  نہ کہ طلاق پر اکراہ۔ گویا کہ آپ نے بیوی کی طرف سے حق مہر کی معافی اور فی الحال قرض کے مطالبہ سے بچنےکے لیے دستخط کیے تھے۔

لہذاآپ کے طلاق نامہ پر دستخط کرنے کی وجہ سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے اوراس کی طرف سےحق مہر معاف ہو چکا ہے، کیونکہ یہ درحقیقت طلاق علی المال کی صورت ہے، لہذا اب بیوی شرعاً حق مہر کا مطالبہ نہیں کر سکتی، البتہ قرض کے مطالبے کا اس کو حق حاصل ہے، باقی نکاح کا  حکم یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں رجوع یا دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا، البتہ اگر عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ ہمبستری بھی کرلے،  پھر وہ شخص اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا وہ فوت ہو جائے تو اُس شخص کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔  

حوالہ جات
اللباب في شرح الكتاب (2/ 4) المكتبة العلمية، بيروت:       
والكتاب كالخطاب، وكذا الإرسال حتى أعتبر مجلس بلوغ الكتاب وأداء الرسالة.
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

3/ربیع الاول 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے