021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع کا حکم
81375طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

ایک خاتون نے فیملی کورٹ بٹگرام سے خلع کی ڈگری لی ہے۔ یہ ڈگری عدالت نے اس خاتون کواس کے والدین، شوہر اور شوہرکے والدین کی موجودگی میں فریقین کے بیانات سننے کے بعد نکاح کو فسخ کرکے جاری کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں آسیہ بی  بی کا نکاح شرعاً فسخ ہوا ہے اور کیا وہ دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے یا نہیں؟(بتغییریسیر:نام حذف)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے چند باتیں ذہن نشین کرلیں:

نکاح کو ختم کرنے کا سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ کسی مناسب طریقے سے کوشش کرکے شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ کیا جائے،اگر وہ بغیر عوض کے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو پھر کسی عوض مثلا مہر وغیرہ کے بدلے اس سے خلع لینے کی کوشش کرلی جائے،اگرچہ شوہر کے قصوروار ہونے کی صورت میں اس کے لئے طلاق کے بدلے کوئی عوض لینا جائز نہیں،پھر اگر شوہر نہ طلاق دینے پر آمادہ ہو اور نہ خلع پراور نہ ہی بیوی کو ساتھ رکھ کر مارپیٹ، ستم و زیادتی اور تشدد سے باز آنے کے لیے تیار ہو، تو ایسے میں ظلم و تشدد کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرنا جائز ہے، لیکن ایسی صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ عدالت میں دو گواہوں سے اپنے دعوی کو ثابت کردیا جائے۔  اس طرح گواہوں کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کرنے کے بعد اگر قاضی یا عدالت فسخ نکاح کا فیصلہ کردے تو وہ فیصلہ نافذ ہوگا اور عدت گزارنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی لیکن اگر عورت نے گواہوں کے ذریعہ شوہر کا جرم ثابت نہیں کیا یا وہ جرم اس درجہ کا نہ ہو جس سے عدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہو تو اس طرح کی عدالتی خلع کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی۔

صورت مسئولہ میں اگر شوہر قصور وار تھا اور اس کا قصور اس قدر تھا کہ اس کی بنیاد پر خلع کا مقدمہ درج کرنا جائز تھا، یعنی ناقابل برداشت مار پیٹ کرتا تھا، واجب نان و نفقہ نہیں دیتا تھا، علاج کے لیے مہلت دینے کے باوجود عورت کی جنسی خواہش کو پورا نہیں کرسکتا تھا وغیرہ، خلع لیتے وقت آسیہنے مذکورہ بالا طریقہ کار کو اپنایا تھا، یعنی گواہوں کے ذریعے شوہر کا جرم ثابت بھی کیا اور عدالت نے محض بیوی کے بیان پر فیصلہ نہیں سنایا، تو پھر عدالت کا یہی فیصلہ فسخ نکاح شمار ہوگا، جس کی وجہ سے آسیہ کا نکاح ختم تصور ہوگا ۔ اس صورت میں عدت گزارنے کے بعد وہ دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ اور اگر شوہر کے خلاف دعوی کو عدالت میں گواہوں سے ثابت نہیں کیا گیا اور عدالت نے محض بیوی کے دعوی پر خلع کی ڈگری دی ہے تو عدالت کے یک طرفہ ڈگری جاری کرنے کا کوئی اعتبار نہیں، آسیہ کا نکاح باقی ہے کسی جگہ نکاح نہیں کرسکتی،  البتہ اگر شوہر یہ جانتے ہوئے کہ یہ خلع کی ڈگری ہے اور دلی رضامندی سے اس پر دستخط کردے تو یہ خلع یا عدالتی ڈگری معتبر ہوگی اور آسیہ کودوسری جگہ نکاح کرنے کی اجازت ہوگی۔

حوالہ جات
أحكام الأحوال الشخصية في الشريعة الإسلامية (ص: 165)
وأما القاضي فلا يطلق الزوجة بناء على طلبها إلا في خمس حالات: التطليق لعدم الإنفاق، والتطليق للعيب و التطليق للضرر، والتطليق لغيبة الزوج بلا عذر، والتطليق لحبسه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 439)
الخلع (هو) لغة الإزالة، وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح المتوقفة على قبولها بلفظ الخلع أو ما في معناه).وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
حاشية ابن عابدين (3/ 498)
 قوله ( وإلا بانت بالتفريق ) لأنها فرقة قبل الدخول حقيقة فكانت بائنة ولها كمال المهر وعليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة ,بحر , قوله ( من القاضي إن أبى طلاقها ) أي إن أبى الزوج لأنه وجب عليه التسريح بالإحسان حين عجز عن الإمساك بالمعروف فإذا امتنع كان ظالما فناب عنه وأضيف فعله إليه
المبسوط للسرخسي (6/ 173)
(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.

عنایت اللہ عثمانی عفی اللہ عنہ

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

02/ربیع الاول/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے