021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع لینے کے بعد بیوی کے میراث کا حکم
81388طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

خلاصہ سوال: چھوٹا بھائی جو 2002ء میں برطانیہ میں ذہنی توازن کھو بیٹھا اور اکثر ہسپتال میں رہنے لگا، صحت کی قدرے بحالی پر اس کی شادی 2006 ء میں کراچی میں ایک خاتون سے کرادی گئی۔ شادی کے دو ڈھائی مہینےبعد وہ واپس برطانیہ چلا گیا اور وہاں جاکر صحت انتہائی خراب ہوئی اور 2010ء سے 2023ء میں انتقال تک مسلسل کیئر سنٹر میں رہا۔ 2016ء میں مارپیٹ، حقوق ادا نہ کرنے اور نان نفقہ نہ دینے کا دعوی کرکے بیوی نے خلع کا مقدمہ دائر کیا ۔ شوہر بیماری کے سبب اس سارے معاملے سے لا علم رہا اور ذہنی توازن کے کھوبیٹھنےکی وجہ سے وکیل بنانے کا بھی اہل نہ رہا۔ عدالت نے یک طرفہ سماعت کی اور خلع کی ڈگری جاری کی۔انتقال کے بعد گھر میں دوبارہ یہ ذکر چل نکلا کہ سات سال پہلے طلاق ہوئی تھی یا نہیں ؟ سوال یہ ہے کہ بھائی کے ترکے کی تقسیم کیسے ہوگی؟ ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں ، بیوی تو سات سال پہلے خلع لے چکی ہے۔

وضاحت: اصل سوال ، خلع کی ڈگری اور عدالتی فیصلہ ساتھ لف کیا جاتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق شوہر اور نہ اس کا وکیل عدالت میں حاضر ہوا اور  عدالت کی طرف سے جاری شدہ فیصلہ پر شوہر نے  دستخط بھی نہیں کیے، شوہر نے زبان سے اس فیصلے پر رضامندی کا اظہار  بھی نہیں کیا ہے تو اس صورت میں عدالت کی طرف سے جاری کردہ خلع کا یک طرفہ فیصلہ شرعاً معتبر نہیں، کیونکہ خلع کے شرعاً درست ہونے کے لیے فریقین کی باہمی رضامندی کا ہونا ضروری ہے، جبکہ مذکورہ صورت میں شوہر کی طرف  سے رضامندی نہیں پائی گئی۔

سوال میں شوہر کے ورثاء کا اقرار ہے کہ وہ مریض ہونے کی وجہ سے حقوق زوجیت، نان نفقہ وغیرہ دینے پر قادر نہ تھا تو اگر عورت نے عدالت میں گواہوں سے یا دوسرے کسی ناقابل تردید ثبوت سے شوہر کے یہ امور ثابت کیے تھے تو یہ نکاح فسخ شمار ہوگا اور عورت کو شوہر کی میراث میں کچھ نہیں ملے گا۔ اس صورت میں میراث کی تقسیم ایسے ہوگی کہ اس کے ترکہ کو دس حصوں میں تقسیم کیا جائیگا، دو دو حصے چار بھائیوں کو ملیں گے اور ایک ایک حصہ بہنوں کو۔  اگر عورت نے گواہوں سے یا دوسرے کسی ناقابل تردید ثبوت سے شوہر کے یہ امور عدالت میں ثابت نہیں کیے تھے، عدالت نے محض بیوی کے بیان پر اکتفاء کرکے فیصلہ سنایا تھاتواس فیصلے کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ نکاح فسخ نہیں ہوگا۔ لہذا فریقین کے درمیان بدستور نکاح شوہر کے انتقال تک قائم شمار کیا جائے گا اور شوہر کے انتقال کی صورت میں بیوی  اس کے شرعی ورثاء میں شمار کی جائے گی اور ترکہ کی تقسیم مندرجہ ذیل جدول کے مطابق ہوگی۔

ورثاء

عددی حصے

فیصدی حصے

بیوی

10

25%

بھائی1

6

15%

بھائی 2

6

15%

بھائی 3

6

15%

بھائی4

6

15%

بہن 1

3

7.5%

بہن 2

3

7.5%

ٹوٹل

40

100٪

حوالہ جات
تسهيل الفرائض (ص: 36)
ميراث الزوجة
ترث الزوجة من زوجها الربع: إن لم يكن له فرع وارث. وترث الثمن: إن كان له فرع وارث منها أو من غيرها،
تسهيل الفرائض (ص: 53)
وإن وجد معهن معصب وهو الأخ الشقيق، ورثن معه بالتعصيب، للذكر مثل حظ الأنثيين، لقوله تعالى:
{وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} ."النساء: من الآية176". وهذه هي الحال التي يرثن فيها بالتعصيب بالغير.
"المبسوط للسرخسي" (6/ 173):
"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد".

عنایت اللہ عثمانی عفی اللہ عنہ

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

02/ربیع الاول/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے