021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع کا حکم
81399طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

میری بیوی نے جھوٹے الزامات لگاکر خلع کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد میرے دوست سے کورٹ میں شادی کرلی ہے۔ میرا خلع دینے کا نہ ارادہ تھا، نہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں میری بیوی ابھی بھی میرے نکاح میں ہے۔ جج نے بیوی سے بولا اگر تم جھوٹ بول رہی ہو تو اس کا عذاب تم پر ہی ہوگا اور پہلی پیشی پر ہی مجھے چیمبر میں بٹھاکر کہا کہ یہ رہنا نہیں چاہتی، اس وجہ میں خلع کی ڈگری دے رہا ہوں۔ میرے منع کرنے کے باوجود جج نے ڈگری جاری کی۔ اب اس صورتِحال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے چند باتیں ذہن نشین کرلیں:

نکاح کو ختم کرنے کا سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ کسی مناسب طریقے سے کوشش کرکے شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ کیا جائے،اگر وہ بغیر عوض کے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو پھر کسی عوض مثلا مہر وغیرہ کے بدلے اس سے خلع لینے کی کوشش کرلی جائے،اگرچہ شوہر کے قصوروار ہونے کی صورت میں اس کے لئے طلاق کے بدلے کوئی عوض لینا جائز نہیں،پھر اگر شوہر نہ طلاق دینے پر آمادہ ہو اور نہ خلع پراور نہ ہی بیوی کو ساتھ رکھ کر مارپیٹ، ستم و زیادتی اور تشدد سے باز آنے کے لیے تیار ہو، تو ایسے میں ظلم و تشدد کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرنا جائز ہے، لیکن ایسی صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ عدالت میں دو گواہوں سے اپنے دعوی کو ثابت کردیا جائے۔  اس طرح گواہوں کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کرنے کے بعد اگر قاضی یا عدالت فسخ نکاح کا فیصلہ کردے تو وہ فیصلہ نافذ ہوگا اور عدت گزارنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی لیکن اگر عورت نے گواہوں کے ذریعہ شوہر کا جرم ثابت نہیں کیا یا وہ جرم اس درجہ کا نہ ہو جس سے عدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہو تو اس طرح کی عدالتی خلع کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی۔

منسلکہ کاغذات کی روشنی میں مدعیہ (Plaintiff) نے کورٹ میں یہ دعوی دائر کیا ہے کہ ان کا شوہر (Defendant) انتہائی درجے کی جسمانی اذیت میں مبتلیٰ رکھتا تھا، بے رحمی سے مارپیٹ کرکے گھر سے نکال دیتا تھا اور گالم گلوچ کرتا تھا۔ ان اعذار کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرنا جائز ہے۔ اگر مدعیہ نے خلع لیتے وقت مذکورہ بالا طریقہ کار کو اپنایا تھا، یعنی گواہوں کے ذریعے شوہر کا جرم ثابت کیا تھا، عدالت نے محض بیوی کے بیان پر فیصلہ نہیں سنایا، تو پھر عدالت کا یہی فیصلہ فسخ نکاح شمار ہوگا، جس کی وجہ سے بیوی کا نکاح ختم تصور ہوگا۔ اور اگر شوہر کے خلاف دعوی کو عدالت میں گواہوں سے ثابت نہیں کیا گیا اور عدالت نے محض بیوی کے دعوی پر خلع کی ڈگری دی ہے تو عدالت کے یک طرفہ ڈگری جاری کرنے کا کوئی اعتبار نہیں، عورت کا نکاح باقی ہے۔  کسی جگہ نکاح نہیں کرسکتی،  البتہ اگر شوہر یہ جانتے ہوئے کہ یہ خلع کی ڈگری ہے اور دلی رضامندی سے اس پر دستخط کردے تو یہ خلع یا عدالتی ڈگری معتبر ہوگی ۔

بالا تفصیل کے مطابق اگر بیوی کی خلع کی ڈگری ایسی ہو جس کا شرعاً کوئی اعتبار نہ ہو یعنی وہ بدستور آپ کے نکاح میں ہو، اور آپ اس رشتے کو حقیقتاً نبھانا چاہتے ہوں،  بیوی کو واپس بلاکر اذیتوں میں معلق رکھنے کا ارادہ نہ رکھتے ہو، تو یہ پیغام اپنے اور بیوی کے خاندان کے کچھ محترم اور معزز  افراد کے ذریعے ان تک (اور ان کے نئے شوہر اور اس کے خاندان تک)پہنچائیں  کہ وہ بدستور آپ کی بیوی ہے، دوسری جگہ ان کا نکاح کرنا ناجائز و حرام ہےاور نکاح منعقد نہیں ہوا ہے۔ آپ رشتےکو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس ذریعے سے پیغام پہنچانےمیں امید ہے کہ وہ حضرات آپ کی بات کو سنیں گے اور اہلیہ دوسری جگہ تاحیات زنا کے عظیم گناہ سے بچنے اور سابقہ شوہر کی طرف لوٹنے کو ترجیح دے گی۔  دوسری طرف بالا تفصیل کے مطابق اگر عدالتی خلع معتبر ہو یا عدم اعتبار کی صورت میں آپ سابقہ رشتے کو برقرارنہیں رکھنا چاہتے یا آپ کو لگتا ہے کہ بیوی کسی صورت واپس آنے کو تیار نہ ہوگی تو آپ کو اپنی رضامندی سے طلاق یا معاوضہ لے کر خلع دے دینا چاہیےتاکہ عورت اس وجہ سے گناہ سے بچے اور آپ اس پر عنداللہ ماجور ہوں۔(واللہ اعلم بالصواب)

حوالہ جات
أحكام الأحوال الشخصية في الشريعة الإسلامية (ص: 165)
وأما القاضي فلا يطلق الزوجة بناء على طلبها إلا في خمس حالات: التطليق لعدم الإنفاق، والتطليق للعيب و التطليق للضرر، والتطليق لغيبة الزوج بلا عذر، والتطليق لحبسه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 439)
الخلع (هو) لغة الإزالة، وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح المتوقفة على قبولها بلفظ الخلع أو ما في معناه).وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

عنایت اللہ عثمانی عفی اللہ عنہ

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

03/ربیع الاول/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے