021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حکومت کا یونیورسٹی وغیرہ بنانے والوں سے رقم بطورِ ضمانت لینے کی شرعی حیثیت
81400امانتا اور عاریة کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

رقم کو ضمانت کے طور پر رکھنا شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟ اگر رقم کو ضمانت کے طور پر عقد سے پہلے یا بعد میں رکھا جائے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

تنقیح: سائل نے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اصل سوال یہ ہے کہ جب کوئی شخص پرائیوٹ ادارہ مثلا یونیورسٹی وغیرہ بناتا ہے تو حکومت اس سے بطورِ ضمانت کچھ رقم لیتی ہے، تاکہ اگر کل کو یہ شخص غائب ہوجائے تو لوگوں کے حقوق اس رقم سے ادا کیے جاسکیں۔ کیا حکومت کا اس طرح بطورِ ضمانت یہ رقم لینا جائز ہے؟ حالانکہ ابھی تک اس شخص نے لوگوں کے ساتھ عقد نہیں کیا ہوتا، نیز وہ عقد دوسرے لوگوں کے ساتھ کرے گا، جبکہ رقم اس سے حکومت لیتی ہے۔ اس مسئلے میں یہاں لوگوں کا اختلاف ہے، دلائل اور حوالہ جات کے ساتھ جواب دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حکومت کا مصلحتِ عامہ کی خاطر عوام سے کوئی معاملہ کرنے والے سے کچھ رقم لینا اور اپنے پاس رکھنا جائز ہے۔ اس رقم کی فقہی تکییف "رہن" نہیں، بلکہ "امانت" سے ہوگی۔ یہ رقم "رہن" اس لیے نہیں ہوسکتی کہ جس وقت حکومت متعلقہ شخص یا ادارے سے یہ رقم لیتی ہے، اس وقت تک اس شخص کے ذمے میں کوئی دین، عین مضمون بنفسہا یا کوئی کام اور خدمت واجب نہیں ہوتی جس کے بدلے میں اس رقم کو رہن قرار دیا جائے؛ اس کو رہن قرار دینے سے یہ معاملہ "رہن بالدرك" کے زمرے میں آئے گا، جو جائز نہیں۔

اس رقم کے امانت ہونے پر بعض دفعہ یہ اشکال ہوتا ہے کہ امانت میں امانت رکھوانے والا جب چاہے، اپنی چیز واپس لے سکتا ہے، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہوتا، وہ شخص اپنی رقم حکومت سے نہیں لے سکتا۔  تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم عام امانت کا ہے جو کسی کے پاس حفاظت کی غرض سے رکھوائی جاتی ہے۔ جو امانت کسی معاہدہ یا وعدہ کو پورا کرنے کی اطمینان کے لیے دی جاتی ہے، اس میں جب تک وہ معاہدہ یا وعدہ اپنی انتہاء کو نہیں پہنچتا، امانت رکھنے والا اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ یہ ایک انتظامی معاملہ ہے جو فریقین باہم رضامندی سے کرتے ہیں، جس میں کوئی قابلِ اشکال بات نہیں۔ مزید یہ کہ  اگر امانت رکھوانے والے کو اس کی امانت واپس کرنے میں یہ اندیشہ ہو کہ وہ امانت وصول کرنے کے نتیجے میں کسی کو نقصان پہنچاسکتا ہے تو  اس امانت کو روکنا جائز ہوتا ہے۔ 

صورتِ مسئولہ میں بھی جب حکومت ادارہ بنانے والے سے یہ رقم عوام کی مصلحت کی خاطر امانتًا رکھواتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ جائز ہے۔

اس کی نظیر اجارۃ الاعیان میں "سیکیورٹی ڈپازٹ" ہے جو گھر، دکان اور گاڑی وغیرہ کسی کو کرایہ پر دیتے وقت لیا جاتا ہے۔ سیکیورٹی ڈپازٹ کی رقم اصولی طور پر مالک کے پاس کرایہ دار کی امانت ہوتی ہے، لیکن جب تک ان کی کرایہ داری کا معاملہ ختم نہیں ہوتا، وہ اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ واضح رہے کہ کرایہ دار کی طرف سے صراحۃً یا دلالۃً استعمال کی اجازت پائی جانے کی صورت میں "سیکورٹی ڈپازٹ" کی رقم کا قرض میں تبدیل ہوجانا الگ مسئلہ ہے جس سے اس کی اصل حیثیت یعنی امانت ہونے پر فرق نہیں پڑتا۔  

اس کی ایک اور نظیر "ہامشِ جدِّیَّۃ" بھی ہے۔ "ہامشِ جدِّیَّۃ" اس رقم کو کہتے ہیں جو وعدۂ بیع یا وعدۂ اجارہ میں خریداری اور اجارہ کا وعدہ کرنے والا  فروخت کنندہ اور مؤجِر کو اس بات کا اطمینان دلانے کے لیے دیتا ہے کہ میں یہ چیز (جس کی بیع یا اجارے کا وعدہ کیا جارہا ہو) خریدنے یا اجارہ پر لینے میں سنجیدہ ہوں۔ یہ رقم بیع اور اجارہ کا معاملہ ہونے تک بائع کے پاس امانت ہوتی ہے، اور بیع یا اجارہ کا معاملہ ہوجانے کے بعد فروخت کنندہ کے ذمے یہ رقم خریدار اور مستاجر کو واپس کرنا لازم ہوتا ہے، الا یہ کہ معاملہ کرنے والے اس کو خریدی ہوئی چیز کی قیمت یا اجارہ پر لی ہوئی چیز کے کرایہ میں شمار کرنے پر متفق ہوجائیں۔  

حوالہ جات
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (2/ 275):
للمستودع أن يمتنع عن رد الوديعة في مسألتين : المسألة الأولى : للمستودع أن يمتنع عن رد الوديعة إذا عجز حسا أو معنى المسألة الثانية : إن كان المودع ظالما في طلبه وديعته فللمستودع أن يمتنع عن إعطائها . مثلا لو كانت الوديعة سيفا وكان قصد المودع أخذه وضرب أحد به فللمستودع أن يمتنع عن إعطائه إياه , ويستمر على الامتناع حتى يتيقن أن المودع عدل عن فكرة الضرب فإذا طلبه المودع وقام الريب بين أن يستعمله للانتقام أو في المسائل المباحة . فللمستودع أن يمتنع عن تسليم الوديعة أيضا (تكملة رد المحتار) .
وإذا حررت امرأة سندا يحتوي على إقرارها بأخذ مطلوبها من زوجها أو أن المال الفلاني هو ملك زوجها وأودعت السند المذكور أثناء مرضها عند شخص على أن يعطى إلى زوجها بعد وفاتها ثم أبلَّتْ من مرضها وأرادت أن تأخذ السند من ذلك الشخص، فلذلك الشخص أن يمتنع عن إعادة السند المار ذكره إلى الزوجة المودعة صيانة لحقوق زوجها .
فقه البیوع(1/119):
قد جرت العادة في بعض المعاملات الیوم أن أحد طرفي العقد یطالب الآخر بدفع بعض المال عند الوعد بالبیع قبل إنجاز العقد، وذلك للتأکد من جدّیته في التعامل.
وهذا کما یشترط طالب العروض في المناقصات (Tenders) أن یقدم صاحب العرض مبلغا یثبت جدیته في التعامل، وکما جری العادة في بعض البلاد أن المشتري یقدم مبلغا من الثمن إلی البائع قبل إنجاز البیع، وذلك لتأکید وعده بالشراء. ویسمی في العرف "هامش الجدیة"، أو "ضمان الجدیة"  (وإن لم یکن ضمانًا بالمعنی الفقهي) فهذه الدفعات لیست عربونًا، وإنما هي أمانة بید البائع، تجري علیها حکم الأمانات.
المعاییر الشرعیة، المعیار التاسع: الإجارة والإجارة المنتهیة بالتملیك(242):
2/3- یجوز للمؤسسة أن تطلب من الواعد بالاستئجار أن یدفع مبلغًا محددًا إلی المؤسسة تحجزه لدیها لضمان جدیة العمیل في تنفیذ وعده بالاستیجار وما یترتب علیه من التزامات……. الخ
2/4- المبلغ المقدم لضمان الجدیة إما أن یکون أمانة للحفظ لدی المؤسسة فلا یجوز لها التصرف فیه، أو أن یکون أمانة للاستثمار بأن أذن العمیل للمؤسسة باستثماره علی أساس المضاربة الشرعیة بین العمیل والمؤسسة، ویجوز الاتفاق مع العمیل عند إبرام عقد الإجارة علی اعتبار هذا المبلغ من أقساط الإجارة. 

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       9/ربیع الاول/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے