021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق اور رجوع کا حکم
81396طلاق کے احکامطلاق سے رجو ع کا بیان

سوال

 مارچ 2022ء کو  میری بیٹی کی شادی ہوئی، میرے داماد نے بغیر کسی عذر شرعی کے پہلے دن سے حق زوجیت ادا نہیں کی۔ بیٹی نے جب یہ بات ماں کو بتائی تو سسرال والوں نے ہنگامہ کرکے سزا کے طور پر 5 ماہ کے لیے میکے میں بٹھاکر رکھا اور اس دوران بھی شوہر سرے سے بیوی سے ملنے نہیں آیا۔ میری بیٹی شوہر کو اس دوران فون اور ایس ایم ایس کرتی رہی کہ مجھے کب لے کر جاؤ گے۔ پانچ ماہ بعد شوہر اس کو گھر لے گیا۔ 25 نومبر  سے 15 دسمبر تک کے بیس دنوں میں شوہر نے صرف ایک دفعہ حق زوجیت ادا کرنے کی کوشش کی اور اس دن کے بعد سے مسلسل بیوی سے تلخ رویہ اپنائے رکھا۔ پہلے دن سے تمام سسرال والوں کا میری بیٹی سے یہی مطالبہ ہے کہ تم اپنے میکے جاؤ اور وہاں سے خلع لو۔شوہر کا کہنا ہے کہ اب اور زیادہ تم پر ظلم کروں گا۔ اپنے کمرے میں کبھی پلنگ کے نیچے، کبھی ماں باپ اور بہنوں کے کمرے میں سونے لگا تھا۔ 14 جولائی 2023ء کو شوہر نے اپنے گھر میں ہی دو طلاقیں دے دی ہیں جس پر اس کے ماں باپ اور بہنیں سب گواہ ہیں۔  اسی دن ہم اپنی بیٹی کو گھر لے آئے ہیں ۔ آج یعنی 24 اگست 2023ء تک میرے داماد یا اس کے گھر والوں نے کوئی رابطہ قائم نہیں کیا ۔ بیٹی شوہر کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر طلاق کے دن سے گھر میں بہت اذیت میں اوردکھی ہے۔

جب شوہر دو طلاقیں دے چکا ہے، پورے دورانیہ میں صرف ایک دفعہ حق زوجیت ادا کرنے کی کوشش کی ہے ، جتنے دن گھر میں رکھا ذہنی اذیت میں مبتلیٰ رکھا، کبھی کوئی شرعی یا جائز حاجات پورے نہیں کیے، آپ شرعی راہنمائی فرمائیں کہ ہم اپنی بیٹی کو اس نکاح سے آزاد کرائیں یا نہیں؟

دو طلاق کے بعد عورت دو دفعہ ایامِ حیض سے گزر چکی ہے، شوہر نے نہ عملی اور نہ قولی رجوع کیا ہے، بیٹی سے رابطہ تک نہیں کیا، اس سلسلے میں عدت کے کیا احکامات ہیں؟ شرعی رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح ایک دائمی پاکیزہ رشتہ ہوتا ہے اس کو نباہنے اور بحال رکھنے کی ہرممکن کوشش ہونی چاہئے۔ بلاوجہ شرعی طلاق یا خلع کے ذریعہ اس محترم رشتے کو ختم کرنا شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے، اس سے حتی الامکان بچنا چاہئے اور رشتے کو ٹوٹنے سے بچانا چاہئے۔ لیکن جب میاں بیوی کے درمیان اس درجہ کشیدگی بڑھ جائے کہ موافقت کی تمام تر تدبیریں ناکام ہوجائیں اور شرعی حدود کی خلاف ورزی ہونے لگے اور معاملہ ناقابل برداشت ہوجائے تو ایسی سنگین صورت حال میں طلاق یا خلع کے ذریعہ اس رشتے کو ختم کردینے کی شرعاً گنجائش ہے۔ اگر واقعتًا  سسرال والے آپ کے بیٹی کو بلا وجہ تنگ کرتےہیں،بلاوجہ میکے جاکر کورٹ خلع لینے کا کہتے ہیں تو ان کا  ایسا کرنا شرعًا جائز نہیں، ناحق کسی کو پریشان کرنا،تنگ کرنا سخت گناہ ہے۔

صورت مسئولہ میں اگر شوہر کے متعلق مذکورہ شکایات درست ہیں اور یہ امر واقعہ ہے ظلم کرتا ہے بغیر کسی شرعی عذر کے حق زوجیت ادا نہیں کرتا اور بیوی شوہر کی زیادتیوں پر صبر کرتے کرتے تنگ آچکی ہے، شوہر کے رویے میں تبدیلی آنے کے بجائے روز بروز اس کی زیادتیوں میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے تو اس رشتے کو ختم کرنے کی شرعاً اجازت ہے۔ اگر شوہر نے صریح الفاظ میں دو طلاقیں دےدی ہے اوردو  ماہواریاں گزرنے پر رجوع نہیں کیا ہے تو تیسری ماہواری گزرنے پر آپ کی بیٹی کا نکاح ختم ہوجائیگا، عدت گزرنے پر بیٹی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 254)
" وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض " لقوله تعالى: {فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ} [البقرة: 231] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها " والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي " وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة.
قال: " أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو بنظر إلى فرجها بشهوة " وهذا عندنا

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

04/ربیع الاول/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے