021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تثویب کی شرعی حیثیت
81360نماز کا بیان تکبیرات تشریق کا بیان

سوال

مدارس  میں  فجر کی اذان کے  بعد  طلبہ  کو  نماز کے لئے  جگایا  جاتا ہے ، اس کے لئے  باقاعدہ  ایک نظم ہوتا  ہے  کہ اس عمل کے لئے  متعین اساتذہ  کرام  رہائش  گاہوں  میں آتے ہیں ،دروازہ  بجاکر آواز یں  لگاکر  طلبہ کو   نیند سے بیدار کرتے ہیں ،اور  انہیں مسجد کی طرف روانہ  کیاجاتا  ہے ، اور  سستی  کرنے  والوں کے خلاف  تادیبی  کاروئی  ہوتی ہے ، بوقت ضرورت  سرزنش  بھی ہوتی  ہے ۔

اب  سوال  یہ ہے کہ اس طرح  اذان  کے بعد  نماز کے لئے باقاعدہ  طور پر  جگانا کیا  یہ تثویب    مکروہ  میں داخل  نہیں  ہے ؟

بعض  حضرات  کا کہنا  ہے کہ  یہ امر  بالمعروف  میں آتا ہے،اس لئے  جائز ہے ۔ شرعی  رہنمائی فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مدارس اسلامیہ  میں طلبہ کرام راتوں  کودیر تک  جاگ کردینی  کتب کے تکرار مطالعہ  میں  مشغول  رہتے ہیں ، جسکی  وجہ سے صبح  جلدی آنکھ نہیں  کھلتی ہے،اسی  طرح دیگر نمازوں کے اوقات  میں  بھی دیگر مشغلوں کی  وجہ سے سستی کرتے ہیں ،   اس کی وجہ  سے مدارس  میں  طلبہ کو نمازوں  کی طرف  متوجہ کرنے کے لئے قیم ﴿نگران ﴾ مقررہوتے ہیں ۔ جواذان کے بعد طلبہ کو نمازوں کی طرف متوجہ کرتے  ہیں  ، چونکہ  مدارس میں  زیر تعلیم  طلبہ  ،اساتذہ  کرام کی تربیت میں ہوتے ہیں ،اس لئے فجر کی اذان کے بعد  طلبہ کو نماز کے لئے جگانا،وقت پر نماز کے لئے نہ پہنچنےپرتادیبی کاروائی کرنا  اوراسی طرح  دیگر نمازوں  کے اوقات میں نمازوں کی طرف  متوجہ کرنا ،یہ کام طلبہ  کی تربیت کاحصہ ہے ،اس میں شرعا کوئی  قباحت نہیں ہے ، اس کو   تثویب میں داخل کرکے اس  پر اعتراض کرنا  درست نہیں ، دوسری  بات یہ ہے کہ تثویب  کے عمل  کی بعض صورتیں  اگرچہ متقدمین کے  زمانے  میں  مختلف فیہ  رہی ہیں، مگر بعد  کے زمانے  میں جیسے  جیسے  زمانہ نبوت سے  دوری ہوتی گئی  لوگوں میں نماز کے معاملے میں سستی اور غفلت  بڑھتی گئی ، تو فقہامتاخرین   نے مغرب کے علاوہ  چاروں  نمازوں  میں  تثویب یعنی اذان واقامت کے درمیان ،نمازوں کی طرف متوجہ کرنے کے لئے، موقع محل کی مناسبت سے ،کسی  بھی جائز طریقہ  کو اپنانے کی اجازت دی  ہے ، بلکہ اس کو مستحسن  قرار دیا  ہے ۔

اس لئے طلبہ  کو  فجر کی نماز کے لئے  جگانے کا عمل  تثویب  مکروہ میں  داخل نہیں ،اور یہ عمل  قابل اعتراض بھی نہیں بلکہ قابل  تقلید ہے ۔ہاں  اگرکسی علاقے میں  نماز  فجر کے لئے  جگانے  کے  سلسلے میں  خلاف  شرع کوئی  عمل شروع کیا جائے ،تو  اس عمل  کاشرعی جائزہ  لیکر ،جائز یا  ناجائز ہونے کا  حکم لگایا جائے گا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 389)
(قوله: ويثوب) التثويب: العود إلى الإعلام بعد الإعلام درر، وقيد بتثويب المؤذن لما في القنية عن الملتقط: لا ينبغي لأحد أن يقول لمن فوقه في العلم والجاه حان وقت الصلاة سوى المؤذن؛ لأنه استفضال لنفسه. اهـ. بحر. قلت، وهذا خاص بالتثويب للأمير ونحوه على قول أبي يوسف فافهم.
(قوله: بين الأذان والإقامة) فسره في رواية الحسن بأن يمكث بعد الأذان قدر عشرين آية ثم يثوب ثم يمكث كذلك ثم يقيم بحر.
(قوله: في الكل) أي كل الصلوات لظهور التواني في الأمور الدينية. قال في العناية: أحدث المتأخرون التثويب بين الأذان والإقامة على حسب ما تعارفوه في جميع الصلوات سوى المغرب مع إبقاء الأول يعني الأصل وهو تثويب الفجر وما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن. اهـ.
(قوله: للكل) أي كل أحد، وخصه أبو يوسف بمن يشتغل بمصالح العامة كالقاضي والمفتي والمدرس واختاره قاضي خان وغيره نهر.
(قوله: بما تعارفوه) كتنحنح، أو قامت قامت، أو الصلاة الصلاة، ولو أحدثوا إعلاما مخالفا لذلك جاز نهر عن المجتبى.
فتح القدير (1/ 465)
( والأفضل للمؤذن أن يجعل أصبعيه في أذنيه ) بذلك أمر النبي عليه الصلاة والسلام بلالا رضي الله عنه ولأنه أبلغ في الإعلام ( فإن لم يفعل فحسن ) لأنها ليست بسنة أصلية ( والتثويب في الفجر حي على الصلاة حي على الفلاح مرتين بين الأذان والإقامة حسن ) لأنه وقت نوم وغفلة ( وكره في سائر الصلوات ) ومعناه العود إلى الإعلام بعد الإعلام وهو على حسب ما تعارفوه ، وهذا التثويب أحدثه علماء الكوفة بعد عهد الصحابة رضي الله عنهم لتغير أحوال الناس ، وخصوا الفجر به لما ذكرنا ، والمتأخرون استحسنوه في الصلوات كلها لظهور التواني في الأمور الدينية .

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۲٦ صفر ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے