021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرکےالفاظ”اب تم آزاد ہو،مرکر بھی میری نہیں،یہ ہی چاہتی تھی ناں تم”کاحکم
81446طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میرا نام سید محمد رافع کمال ہے،ابھی کچھ عرصہ پہلے میرا نکاح ہوا ہے،بیگم سے موبائل کے ذریعے رابطہ ہوجاتا ہے،دو دن پہلے میں نے بیگم کو یہ جملے بول دیئے تھے :"اب تم آزاد ہو،تم مرکر بھی میری نہیں،یہ ہی چاہتی تھی ناں تم"،لیکن میں یہ بات حلفاً بول سکتا ہوں کہ میرا ارادہ طلاق کا نہیں تھا،نہ ہی میرے ذہن میں ایسی کوئی بات تھی،میری بیگم سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی،مہربانی فرماکر بتادیجئے کہ وہ میرے نکاح میں ہے یا نہیں؟

تنقیح:سائل سے تنقیح کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی،جس کی وجہ سے اس کا موڈ خراب تھا اور بیوی بار بار اس سے موڈ ٹھیک کرنے کا مطالبہ کررہی تھی،جس کی وجہ سے تعلقات میں کشیدگی آئی تھی اور ان الفاظ کے بولنے سے دو تین دن پہلے بیوی نے اس سے خلع اور طلاق کا بھی مطالبہ کیا تھا،لیکن شوہر کے بقول پھر اس نےبیوی کو منالیا تھا اور معاملات ٹھیک ہوگئے تھے،لیکن اس دن اس نے بیوی سے میسج پر رابطہ کرنا چاہا تو بیوی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا،جس کی وجہ سے غصے میں آکر شوہر نے اسے ان الفاظ پر مشتمل میسج کیا،لیکن اس کے بقول اس کی طلاق کی نیت نہیں تھی،بلکہ اعمال وافعال میں آزادی کی نیت تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لفظِ "آزاد" اپنی اصل وضع کے لحاظ سے کنایہ ہے اور کنایہ الفاظ کی اس قسم میں سے ہے جن میں صرف جواب بننے کا احتمال ہے جن سے قرینے(حالتِ غضب یعنی غصے یا مذاکرہ طلاق) کی موجودگی میں بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

چونکہ آپ نے مذکورہ جملہ"اب تم  آزاد ہو"بیوی سے غصے کی حالت میں بیوی کے نمبر پر بھیجا ہے،اس لئے حالتِ غضب کے قرینے کی وجہ سے اس کے ذریعے ایک بائن طلاق واقع ہوچکی ہے،جس کا حکم یہ ہے کہ اب اگر  آپ دونوں میاں بیوی دوبارہ ازدواجی زندگی میں منسلک ہونا چاہتے ہیں تو باہمی رضامندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ میاں بیوی کے دوبارہ ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کی صورت میں شوہر کے پاس مزید صرف دوطلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (3/ 100):
"وكذا التكلم بالطلاق ليس بشرط فيقع الطلاق بالكتابة المستبينة وبالإشارة المفهومة من الأخرس لأن الكتابة المستبينة تقوم مقام اللفظ والإشارة المفهومة تقوم مقام العبارة".
"الدر المختار " (3/ 298):
"فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.
(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة
قال ابن عابدین رحمہ اللہ :"(قوله: فنحو اخرجي واذهبي وقومي) أي من هذا المكان لينقطع الشر فيكون ردا أو لأنه طلقها فيكون جوابا رحمتي.....
 (قوله لا يحتمل السب والرد) أي بل معناه الجواب فقط ح أي جواب طلب الطلاق أي التطليق فتح
(قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب......
والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

23/ربیع الاول 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے