021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کی نامردی کی صورت میں بیوی کو حق فسخ نکاح کی تفصیل
81665طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

میری شادی کو کم وبیش ایک سال ہوچکا ہے، اور شادی کی پہلی ہی رات  مجھے اس کا علم ہوا کہ میرے شوہر میں مردانہ کمزوری کا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے وہ کچھ کر نہیں سکتے،لہذا میں نے دوسرے ہی دن اپنی ساس اور اپنی والدہ کو ساری بات  بتادی ،لیکن گھر والوں نے شوہر کے علاج کا مشورہ دیا، اب چار سال ہوچکے اور ہر طرح کا علاج کروا لیا ہے ،لیکن خاطر خواہ  نتیجہ نہیں آیا، اور میں اب یہ سب کچھ اوربرداشت نہیں کرسکتی،کیونکہ خاندان اور معاشرے کے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مجھ میں کوئی مسئلہ ہے، جبکہ میری میڈیکل رپورٹ بالکل کلیر ہے، مسئلہ میرے شوہر میں ہے ،لہذا برائے مہربانی میری رہمائی فرمائیں کہ اسلام اور شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر شوہر شادی کے بعد ایک دفعہ بھی صحبت(دخول) پر قادر نہ ہوا ہو(جیساکہ   مستفتی سےفون پر معلوم ہوا کہ ایک بار بھی ابھی تک قادر نہیں ہوا۔) تو ایسی صورت میں عورت کوفی الجملہ عدالت سےنکاح فسخ کرانے کا شرعااختیار ہے،لیکن تفریق کےلیےعدالتی کاروائی کےطریق کار میں درج ذیل تفصیل ہے:

۱۔ عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے گی اور  عدالت اول خاوند سے  دریافت کرے ،اگر وہ ایک دفعہ بھی ہمبستری پر قادر نہ ہونے کا اقرار کرلے توایسےمیں عدالت اسےعلاج کےلیے ایک سال کی مہلت دے گی۔

۲۔ اگر خاوندعدالت کے سامنے ہمبستری   کا دعوی کرے اورعورت بکارت کا دعوی نہیں کرتی تو مرد سے قسم لے کر مرد کے حق میں فیصلہ دیا جائے گا اور عورت کو حق فسخ حاصل نہیں رہے گا، اور اگر مرد قسم نہ اٹھائے تو اسے ایک سال علاج کی مہلت دی جائے گی۔

۳۔  اگرشوہرہمبستری کادعوی کرےاور عورت بکارت کا دعوی کرتی ہو تو عدالت تجربہ کار اور معتبر عورت سے اس کا معاینہ کرائےگی،ایسےمیں اگر عدالت کی بجائے پنچایت فیصلہ کرے تودو عورتوں کا معاینہ کرنا ضروری ہے،بھر اگر معاینہ سے ثابت ہوا کہ باکرہ نہیں تو شوہر سے جماع پر قسم لی جائے گی ، قسم اٹھالے تو اس کی بات معتبر ہوگی اور عورت کو حق تفریق نہ  ہوگا اور اگر شوہر قسم سے انکار کرے تو ایک سال کی مہلت برائے علاج دی جائے گی اور اگر معاینہ سے بکارت ثابت ہوئی تو عدالت قسم لئےبغیر شوہر کو علاج کے لیے ایک سال کی مہلت دےگا۔

۴۔مذکورہ بالاسب صورتوں میں اگرشوہرعلاج کی مدت میں ایک مرتبہ بھی  ہمبستری پر قادر ہوگیا تو عورت کو حق فسخ نہ رہے گا، اور اگر ایک مرتبہ بھی قادر نہ ہوسکا تو ایک سال کے بعد عورت کی درخواست پر عدالت دوبارہ تحقیق کرےگی۔

(۱)اگر شوہر نے قادر نہ ہونے کا اقرار کر لیا تو عورت کو عدالت اختیار دیدے اگر اس پر عورت اسی مجلس میں  علیحدگی کا مطالبہ کرے تو شوہر سے طلاق دلوادی جائے گی اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرے تو عدالت خود تفریق کرادے گی۔

(۲)اگر خاوند جماع کا دعوی کرتا ہو تو اگر عورت کا بوقت مہلت  ثیبہ ہونا ثابت ہوچکا تھا یا اب زوال بکارت کا اقرار کرلے،مگر ہمبستری کا انکار کرے تو خاوند سے قسم لی جائے گی ،اگروہ قسم اٹھالے تو اس کی بات معتبر ہوگی، اور تفریق نہیں کی جائے گی اور اگر شوہر نے اس وقت بھی قسم سےانکار کردیا تو تو عورت کو حق فرقت ہوگا۔

(۳) اگر خاوندجماع کادعوی کرتاہواوربوقت مہلت عورت کا معاینہ سے باکرہ ہونا ثابت ہوا تھا اور دوبارہ معاینہ میں بھی باکرہ ہونا ہی ثابت ہوجائے تو  کسی سے قسم لئےبغیر عورت کو حق تفریق دیا جائے گا ،لہذا اگر عورت نے اسی مجلس میں کہدیا کہ میں اس شوہر سے الگ ہونا چاہتی ہوں تو عدالت اس کے شوہر کو طلاق کا حکم دے ،اگر وہ انکار کرے تو عدالت خود تفریق کردے۔

ان تمام صورتوں میں یہ تفریق شرعا طلاق بائن کے حکم میں ہوگی،شوہر پر پورا مہر واجب ہوگا اور عورت پر عدت واجب ہوگی۔(احسن الفتاوی:ج۵،ص۴۰۸)  

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۶ربیع الثانی۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے