021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خاوند اورچاربیٹوں میں میراث کی تقسیم
81481میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

آج سے کچھ عرصہ قبل ہمارے والد صاحب جن کا نام قاری عبد الرحمن ہے نے اپنا ملکیتی پلاٹ بیچ کر ہم بھائیوں میں رقم تقسیم کردی اوراس میں ہماری والدہ صاحبہ کو حصہ دیا جس مین انہوں نے اپنی ضروریاتِ زندگی پر خرچ کیا اورجب وہ بیمارہوئی تو  میں اپنے پاس لے آیا،اوربیماری میں ان کے علاج پر خرچ ہوتارہا اوراسی اثنامین ان کا انتقال ہوگیا تجہیزوتکفین کے بعد ان کے حصے کی رقم 5لاکھ روپے بچی اورہماری والدہ کے پاس زیورتھاجو ہمارے نانا(والدہ صاحبہ کے والد) نے دیا تھا اس زیورکوہمارے عرف میں کانٹاکہتے ہیں جسے عورتیں کانوں میں پہنتی ہیں ہماری والدہ نے ایک عددکانٹا اپنی زندگی میں وفات سے پانچ،چھ سال پہلے ہمارے ماموں کو دیا تھا، اس وقت ہمارے اس 5لاکھ روپے نقد اورایک عدد کانٹا ہے اوروالدہ صاحبہ کی تجہیز وتکفین پرخرچ کس کا حق ہے اوران اشیاء کی تقسیم کے بارے  میں آگاہ فرمائیں اس وقت والدہ مرحومہ کے ورثہ میں ہمارے والد اورہم چاربھائی ہیں اوربہن ہماری کوئی نہیں ہے ،بھائیوں میں سے تین کی شادیاں ہوچکی ہیں اورایک غیرشادی شدہے، اس تقسیم میں ہماری رہنمائی فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 صورتِ مسئولہ میں آپ کی والدہ مرحومہ کے کفن دفن کے متوسط اخراجات راحج قول کے مطابق آپ کے والد یعنی مرحومہ کے شوہر پر ہونگے، لیکن اگرآپ کے والد یعنی مرحومہ کے شوہر اس کی تجہیز و تکفین کا خرچہ برداشت کرنے کی وسعت نہیں رکھتے  تو پھرمرحومہ کی ترکہ سے تجہیز وتکفین کاخرچہ لیاجائےگا۔

 تجہیزاورتکفین کےبعد ،قرض اوروصیت (اگرکی ہو)کی ادائیگی علی الترتیب مرحومہ کے مال سےہوگی،اوراس کےبعدورثہ میں باقی ترکہ تقسیم ہوگا،جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگرمرحومہ کےانتقال کے وقت صرف یہی لوگ ہوں جوسوال میں مذکور ہیں ہوں توکل منقولہ غیرمنقولہ  ترکہ  کو 16برابر حصوں پر تقسیم کرکےان میں سےمرحومہ کے شوہر کو4حصےیعنی %25،اور ہربیٹے کو3حصے یعنی%18.75دیئے جائیں گے۔

تجہیزوتکفین کا خرچہ جیسے کہ اوپر لکھ دیا گیا ہے مرحومہ کے مال سے ہوگا،البتہ اگرکسی نے یہ خرچہ تبرعاً اپنی طرف سے اداکیا ہو تو پھرمرحومہ کے مال وہ منہانہیں ہوگا۔

حوالہ جات
حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (باب احکام الجنائز، ص: 573)
(وعلی الرجل تجهيز امراته) اي تكفينها ودفنها.... ولو كان الزوج معسرا وهي موسرۃ في الاصح وعليه الفتوى، ومن مات ولا مال له فكفنه على من تلزمہ نفقته من اقاربه.... قوله (ولا مال له) قيد به لانه لو كان له مال فانه يجب فيه ويقدم على الدين.
وفی الشامیة:
"واختلف في الزوج، والفتویٰ علی وجوب کفنہا علیه عند الثاني، وإن ترکت مالاً (الدر المختار) …  أنه یلزمه کفنہا وإن ترکت مالاً وعلیه الفتویٰ".(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، 2/ 206، ط: سعيد)
وفی فتاوی ھندیة :
"یجب الکفن علی الزوج وإن ترکت مالاً وعلیه الفتویٰ".(کتاب الصلاۃ،  الباب الحادي والعشرون في الجنائز، 1/ 141، ط: رشيدية)
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ."  (ص:696, المكتبة الشاملة)
قال للہ تعالی:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ .........وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ...... }             [النساء: 12, 11]
وفی البحر الرائق (8/ 567)
 والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.
السراجی فی المیراث(ص:۳۶)
العصبات النسبیۃ ثلاثۃ ۔۔۔۔۔۔فکل ذکر لا تدخل فی نسبتہ الی المیت انثی ، وھم ٲربعۃ : جزء المیت ، واصلہ وجزء ابیہ، اجزء جدہ، الأقرب فالاقرب .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 1/4/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے