81525 | قسم منت اور نذر کے احکام | متفرّق مسائل |
سوال
ایک بندے نے دل میں یہ نیت کی کہ اگر اللہ میاں مجھے دل کی تکلیف سے نجات دے تو عصر کی چار سنتیں میں اپنے اوپر ساری زندگی کے لیے لازم کرتا ہوں، زبان سے یہ بات نہیں کی۔ اس کو اب دس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے کہ وہ عصر کی سنتیں ادا کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عصر کا وقت مختصر ہوتا ہے، اکثر اوقات میں بندہ بیوی بچوں کے ساتھ یا دوسرے کاموں میں مصروف ہوتا ہے تو اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟ اس کا کوئی متبادل صدقہ یا روزے وغیرہ ہوں تو وہ مجھے بتائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر مذکورہ شخص نے صرف یہ نیت کی تھی، زبان سے ایسا کچھ نہیں کہا تھا تو اس پر عصر کی چار سنتیں پڑھنا لازم نہیں؛ کیونکہ صرف نیت سے نذر منعقد نہیں ہوتی۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع (5/ 81):
كتاب النذر: الكلام في هذا الكتاب في الأصل في ثلاثة مواضع: في بيان ركن النذر، وفي بيان شرائط الركن، وفي بيان حكم النذر. أما الأول فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه، وهو قوله: لله عز شأنه علي كذا، أو على كذا، أو هذا هدي أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
7/ربیع الثانی/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |