021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹھیلے کرایہ پر دیکر کاروبار کی ایک صورت کاحکم
81523شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

ایک بندہ   ٹھیلےکرایہ  پر   دینے کا   کاروبار کرتا ہے ، اس کی صورت یہ ہے کہ   لوگ  سبزی   فروخت  کرنے  یا دیگر  ضرورت  کے  لئے اس کی  دکان سے  متعین  وقت کے لئے ٹھیلے  کرایہ پر  لیتے  ا ور  واپس  کرتے ہیں ۔

  ٹھیلے  اس کے اپنے نہیں  ہوتے  بلکہ اور  لوگوں  کے پیسے  اس کاروبار  میں ہوتے  ہیں ،لوگوں سے معاہدہ کا طریقہ

1۔اگر آپ  ایک  ٹھیلہ   کی اتنی  قیمت  پیشگی دیں ،  تو فلا تاریخ   تک وہ تیار  ہوجائے  گا ، اور  اگلے  مہینے  کی فلاں   تاریخ سے  آپ  اتنا  متعین کرایہ   مجھ سے ہرماہ  وصول کرلیا کریں   ،جوبندہ     ٹھیلے  کی قیمت  ادا  کرکے  جاتا ہے ،پھر اس   کو  کوئی متعین  ٹھیلہ  نہیں   بتایا جاتا  ہے  کہ  یہ آپ کا ہے ، بلکہ  اس کو  ہر ماہ    متعین   کرایہ  ادا کیا جاتا  ہے ۔

2۔یہ معاہدہ  ایک سال  کےلئے  ہوتا ہے ،  اور سال  پورا ہونے کے بعد   رقم  لگانے والے  کی  پوری  رقم واپس کر دیجاتی  ہے ، ٹھیلے  واپس نہیں کئے جاتے،ٹھیلے  خود  اپنے پاس رکھتا  ہے ۔

3۔رقم کی  واپسی کے  موقع پر   جمع کردہ رقم میں  سے  ایک مخصوص رقم ٹھیلے  مرمت  کی مد  میں  کاٹی جاتی  ہے ۔حالانکہ  مرمت کا خرچہ  کم وزیادہ  ہوتا ہے ،

سوال ؛  لوگ   سوال  کرتے  ہیں کہ آپ سے   ٹھیلے  خرید کر کرایہ   پردینے  والوں  کی  تعداد  کافی زیادہ  ہے ،آپ کے پاس  اتنے ٹھیلے   موجود  نہیں ہوتے ؟ 

جواب ؛ میرے  پاس  بہت  ٹھیلے  ہیں جو میں اپنے  شہر کے علاوہ  دیگر شہروں  میں بھی چلاتا ہوں ۔

 آ پ رہنمائی فرمائیں  کہ   یہ کاروبار  جائز ہے  یانہیں ،اور  اس میں حصہ  لیناجائز ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال  میں ذکر کردہ معاملہ شرعی  طور  پر متعدد  خرابیوں پر مشتمل  ہے ،

1۔ پہلی  بات  یہ   ہے ٹھیلے   بنوانا   بیع  استصناع  میں داخل ہے ،اسکی   صحیح ہونے کے لئے  ضروری ہے  کہ  آڈر  کے مطابق  مال تیار  ہونے کے بعد  خریدار   اس  پر قبضہ  کرے ،جبکہ  مذکورہ   صورت  میں  مخصوص   متعین  ٹھیلے پرقبضہ  نہیں  دلایا جاتا  ہے ، لہذا   متعین  مبیع  پر قبضہ  نہ دلانے  کی  وجہ سے  یہ بیع  فاسد  ہے ۔

2۔ اس  کاروبار میں  کرایہ داری  کا  معاملہ بھی  خریداری کے معاملے  ساتھ  مشروط  ہے ، جو صفقہ فی  صفقہ   ہونے  کی بناء پر ممنوع  ہے ،اور  اس کی وجہ  سے بھی معاملہ  فاسد ہے ،

3۔جب  خریدار   اپنے خریدے  ہوے  ٹھیلے  کا مالک  ہے ،تو  سال پورا ہونے کے  بعد  اس کو  اپنا  ٹھیلہ  واپس  لینے کا  اختیار  ہونا  چائے،  اس کی بجائے کرایہ  دار   کا ٹھیلہ  اپنے پاس  رکھ کر پوری  قیمت  واپس  کردینے   کی شرط  لگانا  یہ بھی  شرط  فاسد  ہے ۔

   لہذا   موجودہ  صورت میں  یہ کاروبار ،درحقیقت   سودی کاروبار  ہے ،قرض پر  سود  لینے دینے  کے  لئے درمیان  میں  ٹھیلے کو  واسطہ  بنایا ہے ، اس لئے  یہ معاملہ ناجائز  اور حرام  ہے ، اس میں پیسے لگانا  ، اورکرایہ  کے نام  پر  اضافی  رقم وصول  کرنا  بھی حرام  ہے ، اگر کسی  نے اس کاروبار  میں پیسے  لگایا ہے ،تو  پیسے  واپس  لینا  اور معاملہ ختم کرنا   لازم ہے ،اصل رقم  حلال ہے ،کرایہ کے نام پر لیا   ہوا  اضافی  رقم کا  صدقہ  کرنا لازم  ہے ۔

البتہ  اس کی  متبادل جائز  صورت یہ ہوسکتی  ہے، کہ ٹھیلے  بنوانے اور   کرایہ پر  دینے کے  دونوں  معاملے  الگ الگ کئے جائیں،

 1۔  پہلے  اپنی شرائط کے مطابق  ٹھیلے بنواکر  اس  پر  باقاعدہ  قبضہ  کیاجائے ، پہچان کے  لئے  کوئی  مخصوص  علامت اور نمبر  لگوالے،2 ۔ اس طرح قبضہ مکمل ہوجانے کے بعد  دوسرا معاملہ کرایہ داری  کا کرے۔

3۔  ایک  مرتبہ  معاہدہ  کے مطابق سال  پوا ہونے کے  بعد  مالک کو اختیار ہو کہ  چاہے  توکسی  اور کو  کرایہ پر دے  یا اسی کو دے ، یا جس کے ہاتھ چاہے   موجودہ  قیمت پر  فروخت  کرے، یا  اپنے کسی  اور کام  میں  لائے ۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 185)
على هذا الاستصناع لغة طلب عمل الصانع وشرعا أن يقول لصاحب خف أو مكعب أو صفار اصنع لي خفا طوله كذا وسعته كذا أو دستا أي برمة تسع كذا ووزنها كذا على هيئة كذا بكذا وكذا ويعطي الثمن المسمى أو لا يعطي شيئا فيقبل الآخر منه
 الی قولہ ۰۰۰قد اختلفوا في كونه مواعدة أو معاقدة فالحاكم الشهيد والصفار ومحمد بن سلمة وصاحب المنشور مواعدة، وإنما ينعقد عند الفراغ بالتعاطي ولهذا كان للصانع أن لا يعمل ولا يجبر عليه بخلاف السلم وللمستصنع أن لا يقبل ما يأتي ويرجع عنه ۔

 احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۷ ربیع  الثآنی  ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے