021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فوجی یونٹ میں نماز جمعہ
81603نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

سوال محترم و مکرم مفتیان کرام دامت برکاتہم العالیہ....!

عرض یہ ہے کہ بندہ ایک فوجی یونٹ (ونگ) میں خطیب ہے۔ہمیں نماز جمعہ و عیدین کی  ادائیگی کے سلسلے میں شریعت کی رو سے آپ کی راہنمائی کی ضرورت ہے۔ہماری یونٹ(ونگ) پاکستان کی سرحدی علاقہ صوبہ بلوچستان میں پاک/ایران بارڈر کی حفاظت کیلئے قیام پذیر ہے،اس جگہ کا نام"جالگئی" ہے۔

 اس جگہ کا محل وقوع کچھ یوں ہے کہ یہ علاقہ مکمل پہاڑی علاقہ ہے یہاں پر نہ کوئی پکی سڑک ہے نہ بازار نہ دکانیں اور ہوٹل ہے، نہ ہسپتال اور نہ ڈاک خانہ کی سہولت موجود ہے۔یہاں پر چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں جوکہ ہم سے تقریباً 20 سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے،ان میں سے "سرکزئی"200 آبادی کے ساتھ  20 کلومیٹر کے  فاصلے پر واقع ہے ،اور "کسوئی" 300 نفوس پر مشتمل آبادی 28 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے،اور بستی "ڈمبانی" 350 نفری پر مشتمل آبادی 35 کلومیٹر کے دوری پر واقع ہے،اور "کوٹگان" 200 نفوس پر مشتمل آبادی کے ساتھ 51 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

یہ ساری بستیاں ہم سے مشرقی سمت میں واقع ہےاور ہم سے 2 بڑے شہر جوکہ ایک شہر تربت 148 کلومیٹر کے دوری پر واقع ہے اور دوسرا بڑا شہر پنجگور جو ہم سے 230 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے،جبکہ ہمارے شمالی اور مغربی سمت میں کوئی آبادی نہیں ہے، 7 کلومیٹر کے فاصلے پر ایران بارڈر واقع ہے،اور جنوب سمت میں تربت شہر 148 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے ۔یہ محل وقوع ہے ونگ کا۔

اب مختصراً یونٹ (ونگ) کا خدوخال کچھ یوں ہے کہ "ونگ"  مجموعی طور پر 700 افراد پر مشتمل ہوتی ہے جوکہ مختلف کمپنیوں کی صورت میں علاقے کے مختلف مقامات پر ڈیوٹی پر مامور ہیں اور یہ کمپنیاں مستقل طور پر وہی  ہے، اور انکا رہن سہن کھانا پینا سب کچھ وہی ہے ، اور ہر کمپنی تقریباً 100 سے 120 افراد پر مشتمل ہوتی ہے ۔

یہ کمپنیاں "ونگ" کے مین کیمپ یعنی ہیڈ کوارٹر کمپنی سے 20سے 50 کلومیٹر کے حدود میں ہے،سیکورٹی خدشات کے باعث ان کمپنیوں کے افراد عموماً ہیڈ کوارٹر کمپنی یعنی مین کیمپ میں نہیں آسکتے ہیں۔ان کے لئے ضروریات زندگی وہی فراہم کی جاتی ہیں۔

"ونگ" کیمپ (ہیڈ کوارٹر کمپنی) ایک پہاڑ کے دامن میں واقع ہے ،یہاں رہنے کیلئے ضروری تعمیرات کی گئی ہیں،اور پنجگانہ نماز کے لیے پکی مسجد بنائی گئی ہے جس میں پانچ وقت باقاعدہ آذان ، اقامت اور باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے،اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی بدستور قائم ہے۔"ونگ" میں بیک وقت 100 سے120 نفری موجود ہوتی ہے ۔

کیمپ میں سرکاری کینٹین موجود ہے جس پر بعض اشیاء ضروریہ روزمرہ دستیاب ہیں،اس کے علاوہ دیگر راشن گوشت  فریش یا ڈرائی راشن کوئٹہ جیسے بڑے شہروں سے گورنمنٹ مہیا کرتی ہے، اور "ونگ" کیمپ میں حجام درزی اور ورکشاپ ویلڈنگ جیسی سہولیات موجود ہیں، ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف  ضروری ادویات  کیساتھ موجودہے،اور ونگ میں نہ فیملی کوارٹرز ہے اور نہ ہی کوئی فیملی رہائش پذیر ہے۔

عرض یہ ہے کہ مندرجہ بالا صورت مسئلہ کا ہمیں قرآن و احادیث مبارکہ کی روشنی میں ہماری راہنمائی کی جائے کہ مذکورہ صورت میں ہمارے ہاں جمعہ اور عیدین نماز کی ادائیگی کا کیا حکم ہے ؟

  1. کیا ہم یہاں نماز جمعہ آدا کرسکتے ہیں ؟
  • ہمارے ونگ کے آفیسرز کی بہت بڑی خواہش اور شوق ہے کہ یہاں نماز جمعہ شروع کی جائے !
  • ونگ کیمپ میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر اِذنِ عام نہیں ہے !

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جمعہ  کی نماز شہر،شہر کے مضافات،قصبے یا ایسے بڑے گاؤں میں ہوسکتی ہے جہاں عام ضروریاتِ زندگی سب ملتی ہوں،مثلا وہاں بازار ہو،سڑکیں ہوں،آبادی اتنی ہو کہ اسے قصبہ کہا جاسکے،حکومت کی طرف سے عدالت،تحصیل یا تھانہ ہو،غرض یہ کہ وہ اپنی خصوصیات میں شہر کے مشابہ ہو۔

وہ مقامات جہاں دفاعی یا انتظامی ضرورت کی وجہ سے عام لوگوں کو آنے کی اجازت نہ ہو ،مگروہاں ہر وقت مقامی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد موجود رہتی ہووہاں بھی جمعہ پڑھنے کی گنجائش ہے،مثلا شہر میں موجود ائیرپورٹ،فوجی چھاؤنیاں یاجیلیں،بشرطیکہ ممانعت کا مقصد نماز سے روکنا نہ ہو،بلکہ کوئی دفاعی یا انتظامی ضرورت ہو اور اس پابندی کی وجہ سے باہر کے لوگوں سے جمعہ کی نماز فوت نہ ہو،بلکہ انہیں باآسانی دوسری جگہ جمعہ مل سکتا ہو۔

جو تفصیلات آپ نے بیان کی ہیں ،ان کے پیش نظر اس مقام میں جمعہ کی نماز نہیں ہوسکتی،لہذا ظہر کی نماز پڑھنا لازم ہے۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" (1/ 259):
"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.
أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها .....
أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.
وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.....
"رد المحتار" (2/ 151):
"(قوله الإذن العام) أي أن يأذن للناس إذنا عاما بأن لا يمنع أحدا ممن تصح منه الجمعة عن دخول الموضع الذي تصلى فيه وهذا مراد من فسر الإذن العام بالاشتهار، وكذا في البرجندي إسماعيل وإنما كان هذا شرطا لأن الله - تعالى - شرع النداء لصلاة الجمعة بقوله {فاسعوا إلى ذكر الله} [الجمعة: 9] والنداء للاشتهار وكذا تسمى جمعة لاجتماع الجماعات فيها فاقتضى أن تكون الجماعات كلها مأذونين بالحضور تحقيقا لمعنى الاسم بدائع.
واعلم أن هذا الشرط لم يذكر في ظاهر الرواية ولذا لم يذكره في الهداية بل هو مذكور في
النوادر ومشى عليه في الكنز والوقاية والنقاية والملتقى وكثير من المعتبرات".

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

14/ربیع الثانی1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے