021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے پیپر بنوا کر دستخط کرنا
81610طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

میری دو شادیاں ہوئی ہیں ۔ میرے دوسرے سسرال والوں نے کئی گھنٹے مجھ پر پریشر ڈال کر زبردستی طلاق کے پیپروں پر مجھ سے دستخط  کروائے ہیں۔ دستخط کرنے  سے پہلے ہی میں نے کہا تھا کہ میں دل سے دستخط  نہیں کر رہا اور سائن کرنے کے بعد بھی میں نے کہہ دیا کہ میں نے دل سے دستخط نہیں کیے، یہ پیپر تمہارے کام کے نہیں ہیں۔میں  یہ بات حلفیہ کہتا ہوں اور اس کے میرے بھائی گواہ بھی ہیں۔

 میرے سسرال والوں نے مجھ پر مسلسل دباؤ ڈالے رکھا جب کہ شادی کے وقت انہیں پتہ تھا کہ یہ  میری دوسری شادی ہے اور پہلی بیوی بھی موجود ہے۔ لیکن جب میری پہلی  بیوی سے میری بیٹی ہوئی تو ان لوگوں نے مجھ پر دباؤ  ڈالنا شروع کر دیا کہ میں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دوں۔آئے  دن جھگڑے ہونے لگے۔جب  میری دوسری بیوی سے بھی بیٹے کی ولادت ہوئی تو ان جھگڑوں نےزور پکڑ لیا۔ میرے دوسرے سسرال والوں نے جس دن طلاق کے پیپرپر دستخط  کروائے تو انہوں نے مجھ سے 50 لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی کہ تم یہ رقم ہماری بیٹی کے اکاؤنٹ میں ڈال دو تو ہم تم سے طلاق کے پیپروں پر دستخط نہیں کروائیں گے۔ میرے پاس اتنے پیسے ہی نہیں تھے نہ میں ان کا انتظام کر سکتا تھا مجبوراً میں نے ان کی بات مان لی اور میں نے پیپروں  پر دستخط کر دے۔ وہ طلاق کے پیپر اپنے ساتھ لے گئے اور میرے مانگنے پر بھی انہوں نے مجھے نہیں دیے۔ انہوں نے اپنی بیٹی یعنی میری دوسری بیوی کو گھر پر بٹھا لیا ہے ابھی بھی وہ اس بات پر بضد ہیں کہ میں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دوں جبکہ میری پہلی بیوی میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور اسے میری دوسری شادی پر کوئی اعتراض نہیں۔

 میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے طلاق کے پیپر وں کو  آج  تک نہیں پڑھا اور نہ ہی ان  پر نظر ڈالی ہے۔ میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میرے تعلقات میری بیوی سے 10 اگست 2023 تک خوش آئند رہے ہیں،میرے اور میری بیوی کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے اور میں اپنی بیوی کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔

 نوٹ: طلاق کے پیپر سائل نے خود اپنے کزن سے  بنوائے ہیں۔ پنچائت میں بیٹھنے سے پہلےاسی دن  مسلسل کئی گھنٹے اسن کے سسرال والوں نے پریشر ڈالا تو سائل نے خود دستخط کر کے پیپر ان کو دے دیے اور سائل نے کزن سے کہا تھا کہ جعلی پیپر بنا دیں، البتہ بنانے والا انہیں یہ  بات کہی تھی کہ جعلی پیپر نہیں ہوتے ،پیپر اصلی ہی ہوتے ہیں لیکن آپ کی نیت کا اعتبار ہوگا اگر آپ نیت نہ کریں توطلاق نہیں ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ سسرال والوں نے دوسری شادی اس  شرط کے ساتھ کی تھی کہ سائل پہلی بیوی کو طلاق دے گا ،ساتھ ہی سائل نے  یہ بھی کہا تھا کہ میری پہلی بیوی کے پاس میری بیٹی ہے، جب وہ  سات سال کی ہو جائے گی تو میں اپنی بیٹی کو لے لوں گا اور اس کے بعد طلاق دے دوں گا یا پھر جب میری دوسری بیوی طلاق کا مطالبہ کرےگی تو طلاق دے دونگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جس طرح طلاق کا لفظ بولنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح لکھنے سے یا لکھے ہوئے پر دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔       

جعلی طلاق نامہ تیار کراتے وقت اگر دو گواہ بنالیےجائیں کہ میں جعلی طلاق نامہ تیار کروا رہا ہوں تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں  ہوگی، فرضی طلاق نامہ تیار کرواتے وقت یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے، اور اگر جعلی طلاق نامہ تیار کراتے وقت گواہ نہیں بنائے جائیں (جیسا کہ مذکورہ صورت ہے) تو جعلی طلاق نامہ تحریر کروانے سے بھی طلاق واقع ہو جائے گی اور جتنی طلاق کا ذکر طلاق نامہ میں ہو اتنی طلاق واقع ہوگی۔

مذکورہ صورت میں شدید دباؤ (صرف مسلسل اصرارکرنے  ) کی وجہ سے شرعی اکراہ (زبردستی)  ثابت نہیں ہوا،نیز  طلاق نامہ  بھی آپ  نے خود بنوایا  اور بعد میں خود اس طلاق نامہ پرجس میں طلاقِ ثلاثہ کا ذکر ہے، اپنے اختیار سے دستخط بھی کر دیے، لہذا ایسی صورت میں تينوں طلاقيں واقع ہو کر آپ  کا نکاح ختم ہوگیا ہے اور حرمت ِمغلظہ ثابت ہوچكی ہے۔

تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوقِ زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ طلاق دے دے یا انتقال کر جائے تو عدت گزرنے کے بعد طرفین کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 230)
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَo
رد المحتار(3/246،247)
ولو قال للكاتب اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل ابعث به إليها أو قال له اكتب نسخة وابعث بها إليها وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اه ملخصا.
الفتاوی الهندية (1/378)
وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب إذا جاءك كتابي هذا فأنت طالق فما لم يجئ إليها الكتاب لا يقع كذا في فتاوى قاضي خان.

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

13/ ربیع الثانی/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے