021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مذاق میں طلاق، کاغذ پر طلاق لکھ کر اس کو پھاڑنے اور میسج پر طلاق دینے کا حکم
81607طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

ایک صاحب نے اپنی بیوی سے مذاق میں کہا کہ "طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں"، اس کے بعد رضامندی ہوگئی، ایک بیٹا بھی ہوا ہے۔ پھر اس کے تقریبا پانچ سال بعد شوہر نے ایک پیپر پر طلاق لکھی اور بغیر کسی کو دکھائے پھاڑ دیا۔ اس کے بعد وہ صاحب ملیشیا چلے گئے اور تقریبا دو سال بعد موبائل پر میسج کیا کہ میں اپنے ہوش و حواس میں اسلامی طریقے سے پہلی طلاق دیتا ہوں۔ یعنی پہلی دو طلاقوں کے سات سال بعد یہ میسج کیا ہے۔  

اب اس صورت میں شریعت کا حکم کیا ہے؟ اہلِ حدیث علماء سے فتویٰ لیا ہے، ان کے مطابق آخری گنجائش ہے اور گولی مار ناظم آباد میں باب الاسلام مدرسہ (جو کہ دیوبندی حضرات کا ہے) کے مطابق بھی اگر میاں بیوی راضی ہیں تو ایک چانس باقی ہے۔

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ سات سال پہلے دو طلاقیں دینے کے بعد اگلے دن ہی شوہر نے رجوع کرلیا تھا۔ اس کے بعد شوہر نے سادہ کاغذ پر صرف ایک بار بیوی کا نام لکھے بغیر یہ الفاظ لکھے تھے کہ میں طلاق دیتا ہوں اور یہ اس تناظر میں لکھا تھا کہ ان کی آپس میں بچوں کی دوائی لینے کے معاملے پر لڑائی ہوئی تھی، شوہر وہاں سے رشتے داروں کے گھر چلا گیا پھر وہاں فون پر بیوی سے بات ہوئی تو بیوی نے جب شوہر کے والدین کو برا بھلا کہا تو اس نے غصے میں سادہ کاغذ پر یہ الفاظ لکھے، لیکن طلاق دینے کی نیت نہیں تھی۔ میسج پر جو طلاق بھیجی ہے اس کا پسِ منظر بھی ایسا ہی تھا کہ دونوں کی بات ہو رہی تھی، اسی دوران لڑائی شروع ہوگئی، بیوی نے شوہر کی ماں کو گالی دی تو شوہر نے غصے میں یہ میسج کیا۔

ایک صاحب نے اپنی بیوی سے مذاق میں کہا کہ "طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں"، اس کے بعد رضامندی ہوگئی، ایک بیٹا بھی ہوا ہے۔ پھر اس کے تقریبا پانچ سال بعد شوہر نے ایک پیپر پر طلاق لکھی اور بغیر کسی کو دکھائے پھاڑ دیا۔ اس کے بعد وہ صاحب ملیشیا چلے گئے اور تقریبا دو سال بعد موبائل پر میسج کیا کہ میں اپنے ہوش و حواس میں اسلامی طریقے سے پہلی طلاق دیتا ہوں۔ یعنی پہلی دو طلاقوں کے سات سال بعد یہ میسج کیا ہے۔  

اب اس صورت میں شریعت کا حکم کیا ہے؟ اہلِ حدیث علماء سے فتویٰ لیا ہے، ان کے مطابق آخری گنجائش ہے اور گولی مار ناظم آباد میں باب الاسلام مدرسہ (جو کہ دیوبندی حضرات کا ہے) کے مطابق بھی اگر میاں بیوی راضی ہیں تو ایک چانس باقی ہے۔

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ سات سال پہلے دو طلاقیں دینے کے بعد اگلے دن ہی شوہر نے رجوع کرلیا تھا۔ اس کے بعد شوہر نے سادہ کاغذ پر صرف ایک بار بیوی کا نام لکھے بغیر یہ الفاظ لکھے تھے کہ میں طلاق دیتا ہوں اور یہ اس تناظر میں لکھا تھا کہ ان کی آپس میں بچوں کی دوائی لینے کے معاملے پر لڑائی ہوئی تھی، شوہر وہاں سے رشتے داروں کے گھر چلا گیا پھر وہاں فون پر بیوی سے بات ہوئی تو بیوی نے جب شوہر کے والدین کو برا بھلا کہا تو اس نے غصے میں سادہ کاغذ پر یہ الفاظ لکھے، لیکن طلاق دینے کی نیت نہیں تھی۔ میسج پر جو طلاق بھیجی ہے اس کا پسِ منظر بھی ایسا ہی تھا کہ دونوں کی بات ہو رہی تھی، اسی دوران لڑائی شروع ہوگئی، بیوی نے شوہر کی ماں کو گالی دی تو شوہر نے غصے میں یہ میسج کیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ طلاق سنجیدگی سے دی جائے یا بطورِ مذاق ، ہر دو صورتوں میں واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شوہر نے سات سال پہلے جب بیوی سے "طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں" کے الفاظ کہے تھے تو اس وقت اس کی بیوی پردو طلاقیں واقع ہوگئی تھیں، اس کے بعد جب اگلے دن رجوع کر لیا تھا تو وہ رجوع درست ہوا تھا۔ اس کے بعد سادہ کاغذ پر اگر واقعتاً بیوی کے نام اور طلاق کی نیت کے بغیر یہ کلمات "میں طلاق دیتا ہوں" لکھے تھے تو ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی تھی۔ البتہ اب بیوی سے لڑائی کے دوران میسج کے ذریعے جو طلاق بھیجی ہے، یہ واقع ہوگئی ہے اور تین طلاقیں پوری ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، اب نہ رجوع ہو سکتا ہے، نہ ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح۔

حوالہ جات
الدر المختار (3/ 246)
فروع: كتب الطلاق إن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا، ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب كأن يكتب يا فلانة إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب، جوهرة.
حاشية ابن عابدين (3/ 246)
 مطلب في الطلاق بالكتابة  قوله ( كتب الطلاق الخ ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة. ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب، وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته، وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكن فهمه وقراءته، ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو………… قوله ( إن مستبينا ) أي ولم يكن مرسوما أي معتادا، وإنما لم يقيده به لفهمه من مقابله، وهو قوله "ولو كتب على وجه الرسالة" الخ؛ فإنه المراد بالمرسوم. قوله ( مطلقا ) المراد به في الموضعين نوى أو لم ينو وقوله ولو على نحو الماء مقابل قوله إن مستبينا قوله ( طلقت بوصول الكتاب ) أي إليها ولا يحتاج إلى النية في المستبين المرسوم ولا يصدق في القضاء أنه عنى تجربة الحظ ط، بحر. ومفهومه أنه يصدق ديانة في المرسوم، رحمتي.
تبيين الحقائق (6/ 218):
 ثم الكتاب على ثلاث مراتب:
مستبين مرسوم، وهو أن يكون معنونا أي مصدرا بالعنوان، وهو أن يكتب في صدره "من فلان إلى فلان" على ما جرت به العادة في تسيير الكتاب، فيكون هذا كالنطق، فلزم حجة.
ومستبين غير مرسوم، كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم، فإن هذا يكون لغوا؛ لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق، فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه، كالنية والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه؛ لأن الكتابة قد تكون للتجربة وقد تكون للتحقيق، وبهذه الأشياء تتعين الجهة، وقيل: الإملاء من غير إشهاد لا يكون حجة، والأول أظهر
وغير مستبين، كالكتابة على الهواء أو الماء، وهو بمنزلة كلام غير مسموع، ولا يثبت به شيء من الأحكام وإن نوى.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

        15/ربیع الثانی/1445ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے