021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وصیت کردہ عضوکونکالناجائزہے یانہیں؟
81662جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

عام حالات میں تومردہ کےغسل کے وقت اگرکسی بیماری کے سبب بینڈجزاس طرح لگی ہوں کہ اتارنے سے خون بہنے کاخطرہ ہوتوایسی صورت میں نہ اتارنےکوترجیح دی جاتی ہے،اسی طرح ہروہ چیزجس کے نکالنے میں مشقت ہواس کابھی یہی حکم ہے،لیکن جب اعضاء نکالے جائیں گے تویقینامثلہ سے بچانے کے لئے دوبارہstitches ٹانگے لگانے پڑیں گے،اسی طرح پوسٹ مارٹم میں بھی اس طرح کامعاملہ پیش آتاہے توسٹجزوغیرہ کرنے کاکیاحکم ہوگا اورکیایہ عضونکالناجائزہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہی ضابطہ ہے کہ جب دوخرابیاں سامنے ہوں اوران میں سے کسی ایک کوہی دورکیاجاسکتاہو توان میں سے جوزیادہ بڑی خرابی ہے اس کودورکیاجائے گااورکم درجہ کی خرابی کوبرداشت کیاجائے گا،موجودہ مسئلہ میں ایک طرف انسان کی زندگی اورموت کامسئلہ ہے اوردوسری طرف مردہ کی تکریم کامسئلہ ہے،یہ بات یقینی ہے کہ زندہ انسان کی زندگی کوبچانا انسانی لاش کی تکریم سے زیادہ اہم اورضروری ہے،لہذااگرکوئی شخص وصیت کرجائے کہ اس کے مرنے کے بعداس کافلاں عضو کسی ضرورت مندکودیدیاجائے توبوقت ضرورت انسانی جان بچانے کے لئے دوسرے نقصان کوبرداشت کیاجائے گا،اس عضوکونکالنے کے لئے ایساطریقہ اختیارکیاجائےجس سےچیرپھاڑ کم سے کم ہو اورعضونکالنے کے بعدمناسب مقدارمیں ٹانکے لگانےمیں حرج نہیں۔(یہ مجمع الفقہ الاسلامی اوراسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے فیصلوں اوردیگرمجوزین حضرات کے مقالہ جات سے ماخوذہے)

احتیاط اسی میں ہےحتی الامکان اس سے اجتناب کیاجائے،البتہ اگرکوئی شخص شدیدمجبوری میں ہے،دوسری طرف کسی نے اپناعضونکالنے کی وصیت بھی کی ہوئی ہے توایسی مجبوری کی صورت میں جواز کی رائے رکھنے والے اہل علم کی رائے پر یہ شخص عمل کرلے توامیدہےکہ عنداللہ  معذورہوگا،تاہم اس صورت میں استغفاراورصدقہ کابھی اہتمام کرے۔

حوالہ جات
فی مجلة مجمع الفقه الإسلامي (ج 4 / ص 59):
إذا تعارضت مفسدتان روعي أعظمها ضرراً بارتكاب أخفهما.

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

  ۱۴/ربیع الثانی ۱۴۴۵ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے