021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کاعضونکالنے کے لئے تمام ورثہ کی اجازت ضروری ہے؟
81663جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

اگریہ کہاجائے کہ ورثہ بھی میت کے اعضاء عطیہ کی اجازت دے سکتے ہیں توکسی کے ایک سےزائداولادہوتوکیاسب کی اجازت لیناضروری ہوگا؟اگرکوئی ایک وارث اجازت نہ دے توکیاحکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سب ورثہ کاحق برابردرجہ کاہے،اس لئے سب ورثہ کی رضامندی ضروری ہے،اگرکسی ایک نے بھی انکارکردیاتواعضاءنکالناجائزنہیں۔(یہ مجمع الفقہ الاسلامی اوراسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے فیصلوں اوردیگرمجوزین حضرات کے مقالہ جات سے ماخوذہے)

احتیاط اسی میں ہےحتی الامکان اس سے اجتناب کیاجائے،البتہ اگرکوئی شخص شدیدمجبوری میں ہے اورورثہ مرحوم کے کسی عضو کونکالنے کی اجازت دیدیں تو ایسی مجبوری کی صورت میں جواز کی رائے رکھنے والے اہل علم کی رائے پر یہ شخص عمل کرلے توامیدہےکہ عنداللہ  معذورہوگا،تاہم اس صورت میں استغفاراورصدقہ کااہتمام کیاجائے۔

واضح رہے کہ جوازکی رائے رکھنے والے بھی  انتہائی مجبوری کی صورت میں گنجائش دیتے ہیں،عام حالات میں اس کی گنجائش نہیں دیتے،اس لئےجوازکی رائے رکھنے والے حضرات کے فتوی کوانسانی اعضاء کے عطیہ کی ترغیب کے طورپراستعمال کرنا اوراس عمل کوفروغ دینادرست نہیں،خاص طورپر جب غالب گمان بھی یہ ہوکہ لوگ معمولی بیماریوں کی وجہ سےاعضاء کی خریدوفروخت شروع کردیں گے،اس لئے عمومی طورپراس طرزعمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ انسانی تکریم برقراررہے۔

حوالہ جات
فی الفقه الإسلامي وأدلته (ج 7 / ص 127):
سادساً : يجوز نقل عضو من ميت إلى حي تتوقف حياته على ذلك العضو، أو تتوقف سلامة وظيفة أساسية فيه على ذلك. بشرط أن يأذن الميت أو ورثته بعد موته، أو بشرط موافقة وليّ المسلمين إن كان المتوفى مجهول الهوية أو لا ورثة له

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

     ۱۴/ربیع الثانی ۱۴۴۵ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے