82006 | وقف کے مسائل | مسجد کے احکام و مسائل |
سوال
ہمارے ادارہ میں شعبہ حفظ سے قرآن مجید مکمل حفظ کرنے والے بچوں کے لیے امسال اسکول کا شعبہ بھی شروع کیا گیا ہے، ( جس کا مقصد یہ ہے کہ اس شعبہ کے تحت پڑھنے والے بچے میٹرک کے بعد آگے درس نظامی میں ترجیحی بنیادوں پر اسی مدرسہ میں، یا اُن کی صوابدید پر دیگر مدارس میں چلیں ، اس میں معاشرے کی روش کو دیکھتے ہوئے دونوں امکانات موجود ہیں کہ یہ بچے اُس وقت مدرسہ کی لائن میں ہی چلتے رہیں، یاماحول کے زیر اثر ہوکر اسکول و کالج والی لائن کو ہی اختیار کرلیں )۔
اس شعبے میں فی الحال اُن کی قرآن مجید کی دُہرائی، اُن کی تجوید کی کلاس، ابتدائی دینی تربیتی نصاب، اور انگلش میڈیم کے تحت سائنس مضامین پڑھائے جائیں گے، انتظامیہ کی طرف سے ان کے لیے ماہانہ چار ہزار فیس متعین کی گئی ہے، اس شعبہ میں فی الحال صرف چار طلباء ہیں، جو مدرسہ ہذا سے قرآن مجید مکمل کیے ہوئے ہیں، ان چار طلباء میں دو کی طرف سے مکمل چار چار ہزار ، اور ایک کی طرف سے دو ہزار وصول ہورہے ہیں، جبکہ ایک طالب علم کی طرف سے کچھ بھی نہیں وصول ہو رہا۔ ان بچوں کے اسکول کے مضامین کی خاطر تین ٹیچرز کا انتظام کیا گیا ہے، جن کی ماہانہ تخواہ کل تیس ہزار روپے ہے، اب اس صورت میں بچوں کی طرف سے آمد دس ہزار روپے ہورہی ہے، اور بیس ہزار کی کمی کا سامنا ہے، مذکورہ تفصیل کے بعد معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اسکول کے ٹیچر کی تنخواہوں ( میں بیس ہزار ) کی کمی کو مدرسہ کے وقف فنڈ سے پورا کیا جاسکتا ہے، یعنی : دس ہزار بچوں سے وصول کی جانے والی فیس اور بیس ہزار مدرسہ کے وقف فنڈ سے لے کر ٹیچرز کی تنخو اہ دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اسکول ٹیچر کی تنخواہوں کو مدرسہ فنڈ سے ادا کرنا کہیں ” شرط الواقف کنص الشارع‘ کے تحت ناجائز تو نہیں ؟ ،کہ مدرسہ میں تعاون کرنے والوں کی اصل غرض تو مدرسہ کا تعاون ہوتا ہے، نہ کہ اسکول کے مصارف کو پورا کرنا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگرمدرسہ کی انتظامیہ ضرورت اور مصالحِ وقف کے پیشِ نظر مدرسہ میں اسکول چلانا چاہے تو مدرسہ کا چندہ اسکول کے اساتذہ کی تنخواہوں پر خرچ کرنا جائز ہے، البتہ یہ بات یاد رہے کہ اگر مدرسہ کے چندہ میں زکوة اور صدقاتِ واجبہ کی رقوم بھی شامل ہوں تو اس صورت میں پہلے مستحقِ زکوة طلباء (جوعاقل، بالغ اور غیرہاشمی ہوں)سے ایسی رقوم لوگوں سے لینے اور مصالح مدرسہ پر خرچ کرنے کا وکالت نامہ لے لینا چاہیے، تاکہ لوگوں کی زکوة اور صدقاتِ واجبہ شرعی طریقہ کے مطابق ادا ہو جائیں، ان سے وكالت نامہ لیے بغیر زکوة وغیرہ کی رقوم اسکول کےلیےخرچ کرنا جائز نہیں، اس سے لوگوں کی زکوة وغیرہ ادا نہیں ہو گی اور اس کا گناہ سراسر مدرسہ کی انتظامیہ پر ہو گا، اس لیے اس سلسلہ میں انتہائی احتیاط ضروری ہے۔(مستفاد از فتویٰ نمبر 77312)
حوالہ جات
الدر المختار (4/ 360)
"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.
(وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك".
ولی الحسنین
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
12 ربیع الثانی 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ولی الحسنین بن سمیع الحسنین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |