021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قبیلے کے لوگ گھر یا زمین کسی دوسرے قبیلے والوں کو نہیں بیچنے دیتے
81673شفعہ کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ہمارے گاؤں کا ایک رواج ہے کہ ایک آدمی اپنی زمین یا گھر کسی دوسرے قبیلے کے فرد کو فروخت کرتا ہے تو اس کے اپنے قبیلے کے لوگ اِس فیصلے پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اس بنیاد پر کہ ہمارے قبیلے کے فرد کی زمین کسی دوسرے قبیلے کے لوگوں کے پاس نہیں جا سکتی۔ اس بنیاد پر ایک جرگے کا انعقاد ہوتا ہے اور جرگہ اسی قبیلے کے فرد کے حق میں فیصلہ کرتا ہے اور وہ مشتری سے اسی قیمت کے بدلے میں وہ زمین خرید لیتا ہے حالانکہ ہم نے یہ پڑھا ہے کہ شفعہ کا حق تین لوگوں کے پاس ہوتا ہے (شریک فی نفس المبیع،  شریک فی حق المبیع اور پڑوسی) حالانکہ مندرجہ بالا مسئلے کا تعلق ان تینوں قسموں میں سے کسی قسم کے ساتھ نہیں ہے تو اس مسئلہ کی شرعاً حقیقت کیا ہے، برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زمین یا گھر جو فروخت کیا جارہا ہے وہ اگر قبیلے کی زمین یا گاؤں میں موجود ہے تو قبیلے کے دیگر لوگوں کو پڑوسی یا بعض صورتوں میں شریک فی حق المبیع ہونے کی حیثیت سے شفعہ کا حق حاصل ہوگا، البتہ اگر وہ زمین یا گھر کسی دوسرے علاقے میں موجود ہو تو قبیلے کے لوگوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ قبیلے کے کسی بھی دوسرے فرد کو زمین یا گھر قبیلے سے باہر بیچنے پر پابندی لگائیں۔

بہتر طریقہ یہ ہے کہ زمین یا گھر فروخت کرنے کے لیے پہلے قبیلے کے لوگوں سےمعلوم کیا جائے اگر قبیلے میں کوئی خریدار موجود نہ ہو یا مارکیٹ سے کم قیمت دے رہے ہوں تو پھر قبیلے سے باہر بیچ دیں۔ لیکن اگر قبیلے میں خریدار موجود ہو تو تنازع سے بچنے کے لیے قبیلے میں ہی بیچ دینا بہتر ہے۔

حوالہ جات
رد المحتار (25/ 375)
( وسببها اتصال ملك الشفيع بالمشترى ) بشركة أو جوار.
( قوله بالمشترى ) بفتح الراء ( قوله بشركة أو جوار ) متعلق باتصال وشمل الشركة في البقعة والشركة في الحقوق كما يأتي ، وشمل قليل الشركة وكثيرها كالجوار نبه عليه الأتقاني.
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة (7/ 495)
الشفعة عندنا تستحق على ثلاث مراتب:
أولاً: تستحق بالشركة في عين البقعة، ثم بالشركة في عين حقوق الملك من الطريق والشرب، ثم تستحق بالجوار.
وصورته: منزل بين اثنين في سكة غير نافذة باع أحد الشريكين نصيبه من المنزل، فالشريك في المنزل أحق بالشفعة، فإن سلم فأهل السكة أحق، فإن أسلموا فالجار الملاصق وهو الذي على ظهر هذا المنزل وباب داره في سكة أخرى أحق.
قال محمد رحمه الله في «الأصل»: والجار الذي له الشفعة عندنا الجار الملازق الذي داره لزيق الدار الذي وقع الشراء في سكة نافذة.
وفي الوجه وهذه المسألة في الحاصل على وجهين:
إما أن تكون الدار التي وقع فيها الشراء في سكة نافذة وفي هذا الوجه الشفعة للجار الملازق.
وإما أن تكون في السكة غير نافذة، وفي هذا الوجه جميع أهل السكة شفعاء الملازق، والمقابل في ذلك على السواء.
الجوهرة النيرة (3/ 62)
( قوله : إذا سلمها المشتري ، أو حكم بها حاكم ) لأن الملك للمشتري قد تم فلا ينتقل إلى الشفيع إلا بالتراضي.

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۱۵/صفر الخیر/۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے