021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرایہ دار کا بلدیہ کی دکان کسی اور کو دے کر اس سے رقم لینے کا حکم
81674خرید و فروخت کے احکامحقوق کی خریدوفروخت کے مسائل

سوال

میں ایک دکان لینا چاہتا ہوں جو 22 لاکھ روپے میں مل رہی ہے، مگر وہ دکان لینے کے بعد بھی مجھے بلدیہ (لوکل گورنمنٹ جو عوامی مسائل حل کرتی ہے) کو اس کا کرایہ ادا کرنا پڑے گا؛ کیونکہ وہ دکان بلکہ اس جیسی کم از کم 500 دکانیں بلدیہ کی ملکیت ہے، لیکن لوگ سالوں سے اس میں کاروبار کر رہے ہیں اور بلدیہ کو ماہانہ کرایہ دیتے ہیں جو کافی کم ہے، یعنی 15,000، عموما کرایہ 50 سے 60 ہزار تک ہے۔ اس لیے لوگ بلدیہ کی دکان دوسرے شخص سے لے لیتے ہیں جس کے بعد اب ان کا اور بلدیہ کا معاملہ ہو جاتا ہے، یعنی جو رقم دکان میں پہلے سے کام کرانے والے شخص کو دی جاتی ہے وہ اس دکان کے قبضے کی رقم ہوتی ہے۔ پھر نیا شخص بلدیہ کو کرایہ ادا کرے گا۔ بلدیہ اپنی دکانوں کا  10 یا 15 سال کا ایگریمنٹ کرتی ہے، اس کے بعد ایگریمنٹ دوبارہ کر لیا جاتا ہے۔

تو کیا اس طرح رقم لے دے کر دکان لینا یا آگے کسی کو دینا جائز ہے یا نہیں؟ ہمارے شہر میں یہ رواج اتنا عام ہے کہ علماء حضرات ہوں یا کوئی بھی دین دار طبقہ، سب اس طریقہ کے مطابق چلتے ہیں؛ کیونکہ اس کے بغیر کام کرنا ممکن نہیں۔ اپنی زمین خریدنا ممکن نہیں، وہ 2 سے 3 کروڑ تک ہوتی ہے۔

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ بلدیہ اپنی دکانیں کرایہ پر دینے کے لیے نیلامی کرتی ہے، نیلامی میں شریک ہونے والے سے کچھ رقم لی جاتی ہے، نیلامی ہونے کے بعد جن لوگوں کو دکانیں مل جاتی ہیں ان کی رقم بلدیہ کے پاس بطورِ سیکیورٹی رہتی ہے جو دکان چھوڑتے وقت قابلِ واپسی ہوتی ہے، جبکہ باقی لوگوں کو ان کی رقم واپس کردی جاتی ہے۔ بلدیہ شروع میں پندرہ سال کے لیے معاہدہ کرتی ہے، جب یہ مدت پوری جاتی ہے تو پھر معاہدے کی تجدید ہوتی ہے۔    

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں بلدیہ سے معلوم مدت کے لیے دکان کرایہ پر لینے والے شخص کا وہ دکان کسی اور کو بیع یعنی خرید و فروخت کے طور پر دینا اور اس کے عوض پیسے لینا جائز نہیں، البتہ "تنازل عن الحق" یعنی اپنے حق سے دست برداری کے طور پر دینا اور اس کا معاوضہ لینا جائز ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ بلدیہ سے دکان کرایہ پر لینے والا شخص دکان کا مالک نہیں، اس لیے وہ دکان بیچ کر اس کی ملکیت کسی کو منتقل نہیں کر سکتا، البتہ چونکہ اس کو دکان میں متعینہ مدت یعنی پندرہ سال تک عقدِ اجارہ باقی رکھنے کا حق ہوتا ہے، جس کو فقہی اصطلاح میں "حق إبقاء العقد" کہا جاتا ہے، اور "حق ابقاء العقد" کا عوض وصول کرنا جائز ہے، اس لیے وہ شخص اس حق سے تنازل یعنی دست برداری کا عوض لے سکتا ہے۔

حوالہ جات
فقه البيوع (1/274-270):
 111- حق إنشاء العقد أو إبقاءه:
والثالث: حق إنشاء العقد أو إبقاءه: والمراد بذلك حق إنشاء عقد مع آخر أو إبقاءه، مثل خلو الدور والحوانیت، فإنه حق  لإنشاء عقد الإجارة مع صاحب البقعة أو إبقاءه في المستقبل، ومثل حق الوظائف السلطانیة أو الوفقیة، فإنه حق لإبقاء عقد الإجارة مع الحکومة أو ناظر الوقف.
وقد اتفقت المذاهب الفقهیة علی أنه لایجوز بیع هذا الحق، ولکن کثیرا من الفقهاء الحنفیة والشافعیة والحنابلة جوزوا التنازل عنها بعوض.والفرق بین البیع والتنازل بعوض أن البیع ینقل إلی المشتري ما کان یملکه البائع، والتنازل لاینقل الملك إلی المنزول له، وإنما یسقط النازل حقه، ولیست فائدته في حق المنزول له إلا زوال المزاحمة من قبل النازل.
112- خلو الدور والحوانیت:
المعروف فی کثیر من البلادالیوم أن المؤجرحينمايؤجرأرضه أوبيته،فإنه يعطيه حق البقاءعلي هذه الإجارة إلی الأبد(وقد يسمي حق القرار) بمبلغ مقطوع يأخذه عند عقد الاجارة،ثم يطالبه بأجرة دوريةمتفق عليها، ويعتبر المستأجربعد ذلك مالكالحق القرار، فلو أراد المؤجر أن یسترد منه الأرض المؤجرة، فإنه لا یحق له ذلك إلا بعوض مقطوع یتراضی علیه الفریقان فی ذلك الحین. ………فهناك أربع مسائل:
المسألة الأولی: هل یجوز للمؤجر أن یطالب المستأجر بمبلغ مقطوع سوی الأجرة مقابل منحه حق القرار أو حق البقاء علی الإجارة إلی الأبد؟………..المسألة الثالثة: هل یجوز للمستأجر الأول أن یطالب المستأجر الجدید بعوض عن تنازل حقه في البقاء؟
أما المسألة الأولی: فالظاهر من کلام الفقهاء أصحاب الکتب المعروفة أن ذلك لا یجوز …… وعلي هذا فإن بدل الخلوّ الذي يأخذه المؤجرفي أول العقدلاينطبق علي مثل حق القرار الذي جّوزه المتأخرون في الأراضي الوقفية و السلطانية، و من المقرر أن العاقد لايجوز له أن يطالب العاقد الآخر عوضاعن مجرد دخوله في العقد علاوةًعلي مايستحقه بالعقد، فإنه رشوة…………….. الخ
وأما المسألة الثالثة، وهي: هل یجوز للمستأجر القدیم أن یطالب المستأجر الجدید مقابلًا لحقه في البقاء علی الإجارة؟ فالذین یجوزون بدل الخلو یجوزون ذلك أیضا. أما علی القول بمنع بدل الخلو، فإن کانت الإجارة غیر محددة المدة، کما هو معروف في المؤجرات علی سبیل الخلو فلا یجوز أخذ هذا البدل من المستأجر الجدید. نعم ! إذا حددت مدة أصل الإجارة، ثم تنازل المستأجر عن حقه قبل تلك المدة لمستأجر جدید، فإنه یجوز له أن یأخذ عوضا عن هذا التنازل.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       18/ربیع الثانی /1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے