021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مختلف اوقات میں طلاق دینےکاحکم
81675طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

السلام علیکم!

 1۔میری شادی کو 8سال ہوگئے ہیں،شادی کے ڈیڑھ سال بعد میرے شوہر نے مجھے ایک طلاق دی،طلاق کے الفاظ یہ تھے "میں طلاق دیتاہوں"،پھر کچھ دنوں بعد دوبارہ ساتھ رہنے لگے۔پھر شادی کے چار سال بعد گھر میں والدہ وغیرہ کے سامنے دوسری بارطلاق دی،طلاق کے الفاظ تھے: "میں تمہیں طلاق دیتاہوں"، اس پر میں میکے آگئی، اور تین مہینے وہاں رہی ،اس دوران تین ماہواریاں آگئی تھیں،تین مہینے  بعد میرے شوہر مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور دوبارہ نکاح کے بغیر مجھے اپنے ساتھ رکھا ،پھر ابھی کچھ دن پہلے ہماری لڑائی ہوئی تو انہوں نے مجھے کہاکہ "نکل جا میں تجھے فارغ کرتاہوں،بچی چھوڑ دیں،اور میں تجھے فارغ کرتاہوں"،اس سارے معاملے میں شرعی راہنمائی  درکار ہے ،آیا مجھ پر طلاق واقع ہوگئی ہے ؟اگر ہوگئی ہے تو کتنی واقع ہوئی ہیں؟

2۔ان سب واقعات کے دوران اکثر وبیشتر لڑائی کے دوران یہ کہاکرتے تھے:

" میں طلاق دے دیتا ہوں اگر یہ کام کیا" ،اسی طرح " اگر یہ کام کیا توفارغ کردیتاہوں"، اور کوئی بات مرضی کے خلاف ہوتو اس وقت بھی یہ تکیہ  کلام تھاکہ "طلاق دے دوں گا" اور" فارغ کردوں گا"،اسی طرح یہ بھی کہاکہ "اگر تم اپنی امی یا گھر والوں سے ملوگی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا،فارغ کردوں گا" اور میں اپنی والدہ سے ان کی حیات میں ملتی  رہی ،اب ان کا انتقال ہوگیاہے ،ان الفاظ کے بارے میں راہنمائی فرمائیں کی اان الفاظ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟

3۔میرے شوہر کے اس رویے کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ ہربات پر غصہ کرنا اور طلاق کی دھمکیاں دیناوغیرہ،براہ کرم  اس حوالے سے بھی آگاہ فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔اگر یہ صورت حال حقیقت کے مطابق ہے تو اس کا حکم یہ ہےکہ پہلے جملے "میں طلاق دیتاہوں"، سے ایک طلاق واقع ہوگئی تھی۔ اس کے بعد رجوع کرلیا تھا۔

چار سال کے بعد جب دوبارہ یہ جملہ کہا: "میں تمہیں طلاق دیتاہوں"،  تو اس سے دوسری طلاق واقع ہوگئی۔اس پر تین ماہواریاں  عدت کے طور پر گذر گئیں ،میاں بیوی کے درمیان نکاح کا تعلق ختم ہوگیاہے۔اس کے بعد نکاح کے بغیر اپنے ساتھ رکھنا جائز نہیں تھا۔ اور اب  بھی نکاح کیے بغیر ان کے ساتھ رہنا جائز نہیں ،باہمی رضامندی سے ،نئے مہر کے ساتھ نکاح ہوسکتاہے،مگر شوہر کو فقط ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔

چونکہ نکاح کا تعلق ختم ہوچکا ہے، اس لیے ابھی چند دن پہلے کی لڑائی میں بولے جانے والے ان الفاظ "نکل جا میں تجھے فارغ کرتاہوں،بچی چھوڑ دیں،اور میں تجھے فارغ کرتاہوں"،سے کچھ واقع نہیں ہوگا۔

2۔ اس میں جتنے بھی جملے کہے ہیں وہ سب طلاق نہیں ہیں بلکہ طلاق کی دھمکی ہے کہ مستقبل میں طلاق دوں گا ۔ان الفاظ سے فی الحال کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔ایسے جملے کہنے سے احتراز ضروری ہے۔

3۔میاں بیوی کا رشتہ قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے حسن اخلاق سے نبھایا جائے تو یہ رشتہ کامیاب رہتا ہے،شوہر کو   اپنے اہل وعیال کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدکی گئی ہے،

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ [النساء: 19[

ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے  کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔

حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".(مشکاة المصابیح، 2/282)

ترجمہ: رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".

(مشکاة المصابیح، 2/281)

ترجمہ:رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء

اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں۔

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لايفرك مؤمن مؤمنةً إن كره منها خلقاً رضي منها آخر. رواه مسلم".(مشکاة المصابیح، 2/280، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ: رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے،  اگر  اس کی نظر میں اس عورت کی کوئی  خصلت وعادت ناپسندیدہ ہوگی  تو  کوئی دوسری خصلت وعادت پسندیدہ بھی ہوگی۔

لہذاشوہر کے لیے بات بات پر بیوی کو طلاق کی دھمکی دینا،اذیت دینا جائز نہیں ،ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی اور خیال رکھنا دونوں پر لازم ہے

حوالہ جات

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

19/ربیع الثانی1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے